پاکستان کےتعلیمی نظام پرکووڈ 19کےاثرات

پاکستان کےتعلیمی نظام پرکووڈ 19کےاثرات

کووڈ 19 کی وبا نے پاکستان کو غیر معمولی چیلنجز سے دوچار کیا، جس کے نتیجے میں کئی شعبے بری طرح متاثر ہوئے، اور تعلیم ان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل تھی۔ ملک میں پہلا تصدیق شدہ کیس 26 فروری 2020 کو سامنے آیا، جس کے بعد وائرس کی کئی لہریں آئیں۔ مئی 2023 تک، پاکستان میں تقریباً 15.8 لاکھ کیسز اور 30,000 سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی تھیں، جس کی وجہ سے روزمرہ زندگی شدید متاثر ہوئی۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے ملک گیر تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے لاکھوں بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ ان بندشوں کا دورانیہ مختلف صوبوں میں مختلف رہا، لیکن مجموعی طور پر تقریباً 10.5 ماہ تک تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں، جس سے تقریباً 4 کروڑ طلبہ متاثر ہوئے۔ تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار اور سخت حفاظتی تدابیر کے تحت دوبارہ کھولا گیا، اور ہر علاقے میں وبا کی شدت کے مطابق فیصلے کیے گئے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس  اور مختلف تعلیمی سروے کے مطابق، وبا سے پہلے ہی تقریباً 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر تھے۔ کووڈ 19  کے بعد یہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی، کیونکہ خاص طور پر غریب طبقے کے کئی بچے دوبارہ اسکول نہیں جا سکے۔ پنجاب میں اسکولوں کی بندش سب سے زیادہ رہی، اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ 8فیصد نوجوان لڑکیاں اور 21فیصد لڑکے اسکول دوبارہ کھلنے کے بعد واپس نہیں آئے۔ معاشی دباؤ کے باعث کئی لڑکوں نے ملازمت اختیار کر لی، جبکہ روایتی سماجی روایات کے تحت لڑکیوں پر گھریلو ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ اگرچہ 70 فیصد طلبہ نے تعلیم دوبارہ شروع کی، لیکن تقریباً 18 لاکھ بچے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، اسکول واپس نہ آ سکے۔

سندھ میں بھی صورتحال سنگین تھی، کیونکہ آن لائن تعلیم کے وسائل محدود ہونے کی وجہ سے تعلیمی بحران بڑھ گیا۔ ریموٹ لرننگ کے اقدامات متعارف کرائے گئے، لیکن انٹرنیٹ اور الیکٹرانک ڈیوائسز کی کمی کی وجہ سے بہت سے طلبہ پیچھے رہ گئے۔ مالی مسائل کی وجہ سے 20 لاکھ سے زائد بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوئے، کیونکہ ان کے والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

خیبرپختونخوا میں بھی تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا۔ اسکول طویل عرصے تک بند رہے، اور ڈیجیٹل سہولیات کی کمی کے باعث آن لائن تعلیم کا سلسلہ کامیاب نہ ہو سکا۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں بہت سے بچے اسکول واپس نہیں آ سکے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا میں تقریباً 75فیصد طلبہ نے تعلیم دوبارہ شروع کی، لیکن قبائلی اضلاع میں شرح ترکِ تعلیم زیادہ رہی، کیونکہ وہاں ڈیجیٹل تعلیمی سہولیات ناکافی تھیں اور بے گھری کے مسائل مزید شدت اختیار کر گئے تھے۔

بلوچستان کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک تھی۔ یہاں پہلے ہی خواندگی کی شرح کم تھی، اور اسکول جانے والے بچوں کی تعداد بھی سب سے کم تھی۔ کووڈ 19  نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا، اور ہر سطح پر طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہو گئی۔ ٹیکنالوجی تک محدود رسائی، مالی مشکلات، اور حکومتی عدم توجہی کے باعث اسکول دوبارہ کھلنے کے بعد بھی صرف 60فیصد بچے واپس لوٹ سکے، جبکہ بڑی تعداد میں تعلیمی تسلسل ٹوٹ گیا۔

کووڈ  19کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی مشکلات نےکئی خاندانوں کو تعلیم کے بجائے روزگار کو ترجیح دینے پر مجبور کر دیا۔ خاص طور پر کم آمدنی والے گھروں کے بچے گھریلو اخراجات میں مدد کے لیے کام کرنے لگے۔ لڑکیوں کو اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا، کیونکہ بہت سی کم عمری کی شادیوں اور گھریلو کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔ اس کے علاوہ، طلبہ کی تعلیمی بحالی کے لیے مؤثر حکومتی حکمت عملیوں کا فقدان—جیسے مالی امداد، تعلیمی مشاورت، اور لچکدار تعلیمی شیڈول—نے ہزاروں طلبہ کو مستقل طور پر تعلیم سے باہر رکھا۔

دوسرا بڑا مسئلہ آن لائن تعلیم پر انحصار تھا، جو ڈیجیٹل وسائل کی کمی کی وجہ سے بیشتر طلبہ کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوا۔ تحقیق کے مطابق، کووڈ  19 کے دوران پاکستان میں صرف 36فیصد گھروں میں انٹرنیٹ تک رسائی موجود تھی، جس کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیمی عمل میں شامل نہ ہو سکے۔

حکومت نے تعلیمی بحران سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ وزارت تعلیم نے ٹیلی اسکول نامی منصوبہ متعارف کرایا، جس کے ذریعے ملک بھر کے طلبہ کو ٹیلیویژن پر تعلیمی مواد فراہم کیا گیا۔ اسی طرح، صوبائی حکومتوں نے ہائبرڈ لرننگ پروگرام متعارف کرائے، جن میں پنجاب کا تعلیم گھر اور سندھ کا آن لائن کلاسز پورٹل شامل تھا۔ تاہم، انفراسٹرکچر کی کمی اور طلبہ و اساتذہ میں ڈیجیٹل خواندگی کے فقدان کے باعث یہ اقدامات محدود کامیابی حاصل کر سکے۔

حکومت نے اسکول چھوڑنے والے طلبہ کے لیے دوبارہ داخلہ مہم بھی شروع کی اور مالی امداد، اسکالرشپ، اور وظیفے متعارف کرائے، خاص طور پر لڑکیوں اور کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے۔ لیکن اس کے باوجود تعلیمی بحالی کا عمل سست روی کا شکار ہے، اور ایک بڑی تعداد اب بھی باضابطہ تعلیمی نظام میں واپس نہیں آ سکی۔

اسلام میں تعلیم کو بلند مقام حاصل ہے، اور اسے ایک بنیادی حق اور سماجی ترقی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ العلق میں آیت ۱ تا 5 میں ارشاد ہوتا ہے:

“پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا، انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔”

اسی طرح، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

“علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے” (سنن ابن ماجہ، 224)

مزید برآں، آپ ﷺ نے فرمایا

تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے” (صحیح البخاری، 5027)

تعلیم کی بحالی کے لیے ایک جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ سب سے پہلے، اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے اور ڈیجیٹل تعلیمی سہولیات میں بہتری لائی جائے۔ حکومت کو انٹرنیٹ تک رسائی بڑھانے، سستی ڈیجیٹل ڈیوائسز فراہم کرنے، اور اساتذہ کی جدید تدریسی تربیت پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کمیونٹی اسکولوں اور مالی امدادی پروگراموں کا آغاز کیا جائے۔

مزید برآں، فلیکسبل تعلیمی ماڈلز، جیسے شام کی کلاسز، برج کورسز، اور تیز رفتار تعلیمی پروگرامز کو متعارف کرایا جائے تاکہ وہ طلبہ جو تعلیمی سفر سے باہر ہو چکے ہیں، واپس اسکول جا سکیں۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں ، اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان تعاون بڑھا کر سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی خلاء کو کم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کو   کووڈ  19  نے شدید نقصان پہنچایا، لیکن مضبوط پالیسیوں اور مستقل عزم کے ساتھ، ملک ان نقصانات سے بحالی حاصل کر سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان لاکھوں بچوں کو دوبارہ تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے جو وبا کے دوران تعلیم سے محروم ہو گئے تھے، تاکہ قوم کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔

آذربائیجان اور ازبکستان کے درمیان پارلیمانی تعلقات کو مستحکم کرنے پر گفتگو Previous post آذربائیجان اور ازبکستان کے درمیان پارلیمانی تعلقات کو مستحکم کرنے پر گفتگو
چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا خطے میں امن، اقتصادی انضمام اور پائیدار ترقی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ Next post چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا خطے میں امن، اقتصادی انضمام اور پائیدار ترقی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ