پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت اور افغانستان کا ہاتھ: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت اور افغانستان کا ہاتھ: ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت اور افغانستان ملوث ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کا مرکزی اسپانسر بھارت ہے جبکہ اس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔

یہ بات انہوں نے وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں دہشت گردوں نے منظم کارروائی کرتے ہوئے دشوار گزار راستے کا انتخاب کیا۔ ٹرین پر حملے سے قبل دہشت گردوں نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس میں تین ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔ اس کے بعد دہشت گردوں نے مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا، جبکہ بھارتی میڈیا اس واقعے کی غلط رپورٹنگ کرتا رہا۔

پریس کانفرنس میں بھارتی میڈیا کی جانب سے کی گئی غلط رپورٹنگ کی ویڈیوز بھی پیش کی گئیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارتی میڈیا ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو کو بار بار نشر کرتا رہا، جبکہ کچھ پرانی اور جعلی ویڈیوز کو بھی پیش کیا گیا جن کی جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ویڈیوز اے آئی کے ذریعے تخلیق کی گئی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 11 مارچ کو دہشت گردوں نے آئی ای ڈی دھماکے کے ذریعے پٹڑی تباہ کی، جس سے ٹرین روکی گئی۔ 12 مارچ کو ایف سی اور آرمی کے جوانوں نے علاقے کا محاصرہ کیا اور ٹارگٹڈ فائرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ اس موقع پر دہشت گردوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے مسافروں کو فرار ہونے کا موقع ملا۔ اس کامیاب آپریشن میں کسی بھی مغوی کی جان کو نقصان نہیں پہنچا، جبکہ دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ یہ آپریشن بہت احتیاط سے انجام دیا گیا۔ اسپیشل سروسز گروپ (ضرار گروپ) نے مغویوں کو دہشت گردوں سے نجات دلائی۔ دہشت گرد مسلسل افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے اور ان کے پاس بیرون ملک کا اسلحہ موجود تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس آپریشن میں کسی مسافر کی جان نہیں گئی، جبکہ دہشت گردوں نے کئی مسافروں کو قتل کر دیا جو کہ 24 گھنٹے سے یرغمال بنے ہوئے تھے۔

پریس کانفرنس کے دوران ٹرین ڈرائیور سمیت دیگر بچ جانے والے مسافروں کے بیانات بھی پیش کیے گئے، جن میں انہوں نے دہشت گردوں کے مظالم اور فوج کے کامیاب آپریشن کی تفصیلات بتائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت بھی جائے وقوعہ کے اطراف میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں تاکہ کسی قسم کی مزید دہشت گردی کا سدباب کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے افغانستان سے روابط واضح ہیں اور حالیہ مارے گئے دہشت گردوں میں کچھ افغانستان کے اہم شخصیات کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ اس موقع پر پاکستانی حراست میں موجود بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے بیانات بھی میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے، جن میں اس نے بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی میں مداخلت کا اعتراف کیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے کا مرکزی اسپانسر بھارت ہے، جو ماضی میں بھی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے اور آج بھی اپنی مذموم پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کی ضرورت

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل کیے بغیر دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ 2014 میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے ان نکات پر اتفاق کیا تھا، جن پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ ان میں دہشت گرد گروپوں پر پابندی، ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام، عدالتی نظام کو مضبوط کرنا، مدارس کی رجسٹریشن اور میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کو روکنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں اب تک سیکیورٹی فورسز 11,654 آپریشنز کرچکی ہیں، جن میں 1250 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، جبکہ 563 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں لیکن نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر عملدرآمد ضروری ہے۔

افغانستان سے دہشت گردوں کو مدد مل رہی ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، جہاں وہ تربیت حاصل کرتے اور پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں رہ جانے والا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

لاپتا افراد کا معاملہ

اس موقع پر وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے لاپتا افراد کے حوالے سے کہا کہ حکومت ہر لاپتا شخص کو تلاش کرنے کی ذمہ داری نبھا رہی ہے، لیکن اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ حکومت خود لوگوں کو لاپتا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لاپتا افراد کا مسئلہ موجود ہے، مگر بلوچستان کو اس حوالے سے غیر ضروری طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ لاپتا افراد کے کمیشن کے پاس 10,405 کیسز لائے گئے، جن میں سے 8,044 حل ہو چکے ہیں، جبکہ 2,261 کیسز پر تحقیقات جاری ہیں۔ بلوچستان میں 2011 سے اب تک 2,911 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 2,459 کیسز حل ہو چکے ہیں اور صرف 452 زیر التوا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے، جس کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر متحرک ہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام "ادب اور عورت" مکالمے کا انعقاد Previous post اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام “ادب اور عورت” مکالمے کا انعقاد
امام علی رحمان Next post پیوٹن اور امام علی رحمان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت داری پر تبادلہ خیال