
ریاست جموں وکشمیر پر قبضہ ۔۔ بھارت کاایک سیاہ کارنامہ

کہاجاتاہے کہ دھاندلی اور انصاف کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر کیے گئے فیصلوں کی سزاقوموں کو غیر معینہ عرصے تک بھگتنا پڑتی ہے اور اس کی قیمت ان کی کئی نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام بھی ایسے ہی غیرجمہوری اور غیراخلاقی فیصلوں کی سزا گذشتہ 78 سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند پر سو سالہ حکمرانی نے بعد جب انگریزوں نے یہاں سے اپنا بستر گول کرنے کی ٹھانی تو انہوں نے 3 جون1947 ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت ہندوستان کی مسلم اور ہندو اکثریت کے علاقوں کو اپنی اپنی متعلقہ مملکت میں شامل ہونا تھا لیکن ہندوستا ن میں موجود 586 ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی رعایا کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا۔
ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے 19جولائی 1947ء کو سرینگر میں اپنی واحد نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں بحیثیت مجموعی پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظورکی اور مہاراجہ سے اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی لیکن مہاراجہ نے مسلم اکثریت کے اس جمہوری فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا کیونکہ وہ مذہباً ہندو تھا اور وہ درپردہ بھارتی نمائندوں کے ساتھ سازش کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا جس نے بالآخر ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کا خون کرتے ہوئے 26 اکتوبر1947ء کو ایک نام نہاد الحاق کی دستاویز بھارتی نمائندوں کے حوالے کر دی جس کو بنیا د بنا کر 27 اکتوبر1947ء کو بھارت کی فوج نے زمینی اور فضائی راستوں سے ریاست میں داخل ہو کر ڈوگرہ فوجوں کے ساتھ مل کر ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن تھا جس کی نظیر اقوام عالم کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو گیا بلکہ اس کے پیچھے بھارتیہ ہندو کانگریس، وائسرائے اور مہاراجہ کشمیر کے خفیہ رابطے کار فرما تھے۔ بھارت کے پاس ریاست جموں وکشمیر میں داخلے کا کوئی زمینی راستہ نہیں تھا سوائے ضلع گورداسپور کے، جسے مسلم اکثریت کا ضلع ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن صرف اس کی ایک تحصیل پٹھانکوٹ میں ہندو اکثریت کو بنیاد بنا کرپورے کا پورا ضلع بھارت کے حوالے کردیا جس سے اسے ریا ست جموں و کشمیر میں براہ راست زمینی رسائی میسر آ گئی۔
یہ وائسرائے ہند، مہاراجہ کشمیر اور حدبندی کمشن کے سربراہ ہی تھے جنہو ں نے جمہوری اصولوں اور اخلاقی روایات کی دھجیاں بکھیریں اور ان کے ان غیر اخلاقی اور غیر جمہوری فیصلوں نے ریاست کے عوام کو مسلسل کرب اور اذیت میں مبتلا کر دیا۔ ان تینوں کی اس بددیانتی کی سزا پوری کشمیری قوم کاٹ رہی ہے اور گذشتہ 78 سالوں سے اس کی قیمت ادا کرتی چلی آ رہی ہے لیکن ابھی تک ان کی آزمائش ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ قائداعظم ؒ نے ان کے ان ارادوں کو بھانپ کر پاکستان کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف، جنرل ڈگلس گریسی کو ریاست میں پاکستان کی فوج داخل کرنے کا حکم دیا لیکن باضابطہ فوجوں کی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کی افواج کے مشترکہ سربراہ فیلڈ مارشل کلاڈ آرچنیلیک نے اس حکم پر بروقت عملدرآمد نہ ہونے دیا گوکہ بعد میں اجازت دے دی گئی لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور اسی تاخیر ی حربے کے نتیجے میں بھارتی فوج کو ڈوگرہ سپاہیوں کے ساتھ مل کر پوری ریاست میں پھیل جانے اور لوٹ مار اور قتل و غارت کا بھرپور موقع ملا جس کے سدباب کے لیے ریاست کے پاکستان سے ملحقہ قبائلی عوام اور ریاست کے سابقہ فوجیوں نے مل کر بھارت کی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں پسپا کر کے ریاست کا ایک حصہ آزاد کروا کر وہاں ریاست جموں و کشمیر کی انقلابی حکومت قائم کر کے سرینگر کی طرف پیشقدمی شروع کر دی جب یہ فوجی دستے سرینگر کے قریب پہنچ گئے اور قریب تھا کہ سرینگر ائیرپورٹ پر ان کا قبضہ ہو جاتا لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا جس نے فوری طور پر جنگ بندی کروا دی اور 5 جنوری 1949ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ریاست کے عوام سے ایک استصواب کے ذریعے کروانے کا ڈول ڈالا گیا لیکن 78 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس قرارداد پر عمل درآمد کی نوبت ہی نہیں آئی۔
بھارت کی ہی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ معاملہ ہنوز حل طلب ہے اور کشمیری عوام اپنی آٹھ نسلیں گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ بھارت کشمیری عوام کو ان کے جائز اور قانونی حق، حق خودارادیت سے باز رکھنے کے لیے ریاستی ظلم و تشدد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ اب دنیا کی جمہوری اور امن پسند اقوام کا یہ فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کو بھارت کے ظلم و جبر سے نجات دلواکر ان کے جائز اور قانونی حق، حق خودارادیت کے حصول کے لیے راہ ہموار کریں کیونکہ یہ دوملکوں کے درمیان زمین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ یہ 20 ملین انسانوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جسے دنیا کی ایک ایسی قوم نے سلب کیا ہوا ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتی ہے لیکن اس کے ان ہی غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی وجہ سے کشمیری عوام کی زندگی مسلسل عذاب سے گزر رہی ہے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ دراز ہوتاجا رہا ہے کشمیری عوام کے مصائب میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے ساتھ ساتھ اقوام عالم میں بھارت کی ساکھ بھی متاثر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پر بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے!!!
؎ ہر بشر اس شہر شعلہ بار کا دیتارہا امتحان!!!
نوک پرنیزے کی رکھ کے اپنے سر کا امتحان!!!
اور میرے ہی لئے خوف وخطر کا امتحان!!!
زندگی گردش شام سحر کا امتحان!!!
(مشتاق کشمیری)