
ایران کا یورینیم افزودگی پروگرام ترک نہ کرنے کا اعلان، عباس عراقچی کا مؤقف — “یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے”
تہران، یورپ ٹوڈے: ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے اس بات کا دوٹوک اعلان کیا ہے کہ ایران اپنا یورینیم افزودگی پروگرام کسی صورت ترک نہیں کرے گا، باوجود اس کے کہ گزشتہ ماہ اسرائیل اور امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
پیر کے روز فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عراقچی نے امریکہ کی جانب سے ایران کی افزودگی صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یورینیم افزودگی اب ایران کے لیے صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ قومی فخر کا باعث بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم افزودگی کو ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اور اب یہ قومی وقار کا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہماری افزودگی ہمیں بہت عزیز ہے۔”
عراقچی نے مزید بتایا کہ گزشتہ ماہ امریکہ کے حملوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات کو “سنگین” نقصان پہنچا ہے، اور اب ایرانی ایٹمی توانائی کی تنظیم اس نقصان کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران کے خلاف جارحانہ جنگ کا آغاز کیا، جس میں کئی اعلیٰ عسکری کمانڈرز، جوہری سائنسدان، اور ایک ہزار سے زائد عام شہری شہید کیے گئے۔ امریکہ نے ایک ہفتے بعد براہ راست جنگ میں شامل ہو کر ایران کے تین جوہری مقامات پر حملے کیے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کی صریح خلاف ورزی تھی۔
ایران نے اس جارحیت کے جواب میں اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں اہم اہداف کو نشانہ بنایا، جبکہ مغربی ایشیا میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے “العدید ایئربیس” (قطر) پر بھی حملے کیے، جس کے بعد دشمن کی غیر قانونی کارروائیاں رکنے پر مجبور ہوئیں۔
عباس عراقچی نے مزید کہا، “اگر امریکہ ہمیں ہمارے قانونی حقوق، بشمول افزودگی، سے محروم کرنا چاہتا ہے، تو یہ ممکن نہیں۔ ہم 5 فیصد سے کم سطح پر ایندھن کے لیے افزودگی کر رہے ہیں جو ہمارے ایٹمی بجلی گھروں کے لیے ضروری ہے، جبکہ 20 فیصد افزودگی تہران ریسرچ ری ایکٹر (TRR) کے لیے کی گئی تھی۔”
انہوں نے وضاحت کی کہ، “ہم یورینیم کی افزودگی اپنی داخلی ضروریات کے تحت کرتے ہیں، اور جب ہماری تنصیبات میں تخریبی کارروائیاں ہوئیں، تو ہم نے 60 فیصد تک بھی افزودگی کی۔”
ایران کے اس پختہ مؤقف نے واضح کر دیا ہے کہ وہ بیرونی دباؤ کے باوجود اپنے جوہری حقوق اور خودمختاری سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔