سربرینیتسا

ایرانی وزیرِ خارجہ کا سربرینیتسا اور غزہ کے سانحات کا موازنہ، عالمی بے حسی پر شدید تنقید

تہران، یورپ ٹوڈے: ایرانی وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی نے 1995ء کی سربرینیتسا نسل کشی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کے مابین معنی خیز موازنہ کرتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ وہ ماضی کی ہولناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جمعرات کو سربرینیتسا کے سانحے کی 30ویں برسی کے موقع پر اپنے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر جاری بیان میں عراقچی نے موجودہ المیوں پر عالمی بے عملی کی شدید مذمت کی۔

عراقچی نے یاد دلایا کہ ’’گزشتہ برس اقوامِ متحدہ نے 11 جولائی کو ’سربرینیتسا نسل کشی کی یادگاری عالمی دِن‘ قرار دیا تھا۔ یہ اُن سب کے لیے شرم کا دن ہے جو یا تو شریکِ جرم تھے یا خاموش تماشائی بنے رہے، جب ہزاروں بے گناہ مسلمان قتل کر دیے گئے۔‘‘

انہوں نے زور دیا کہ اگر دنیا نے واقعی سربرینیتسا کے اسباق کو دل سے اپنایا ہوتا تو ’’ہم آج غزہ میں مسلمانوں کی ایک اور نسل کشی کے گواہ نہ ہوتے۔‘‘

ایرانی وزیرِ خارجہ نے سربرینیتسا کے مقتولین کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور زندہ بچ جانے والوں اور اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ایران کے اصولی موقف کی توثیق کی: ’’ایران ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہے گا، چاہے وہ بوسنیا و ہرزیگووینا ہوں یا فلسطین۔‘‘

سربرینیتسا نسل کشی جولائی 1995ء میں بوسنیائی جنگ کے دوران اُس وقت انجام پائی جب اقوامِ متحدہ کے امن دستے کی موجودگی کے باوجود 8,000 سے زائد بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ جدید یورپی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں شمار ہوتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر نسل کشی کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔

عراقچی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور عالمی سطح پر جنگی جرائم کے الزامات اور احتساب کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔

پاکستان Previous post پاکستان اور کینیڈا کے درمیان معاشی و تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق
الہام علییف Next post باکو میں بین الاقوامی سول ڈیفنس تنظیم کی جنرل اسمبلی کا غیرمعمولی اجلاس، صدر الہام علییف کا عالمی سلامتی و تعاون پر زور