
اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی 39ویں غیر رسمی نشست میں گلگت بلتستان کے ادبی شخصیات کی شرکت
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام “چائے، باتیں اور کتابیں” کے سلسلے کی 39ویں غیر رسمی نشست 8 جنوری 2025 کو منعقد ہوئی جس میں گلگت بلتستان سے آئی ہوئی علمی ادبی شخصیات جناب محمد یوسف حسین آبادی، جناب عبدا لخالق تاج، اور جناب احسان علی دانش نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اکادمی کے ناظم جناب محمد عاصم بٹ نے شرکا کو خوش آمدید کہا۔ جناب داؤد کیف، جناب عاصم بٹ اور جناب حمزہ حسن شیخ نے گلگت بلتستان کے ادیبوں سے وہاں کے زبان و ادب، ادبی تنظیموں، ثقافت اور سیاحت کے حوالے سوال کیے۔ جناب عبد الخالق تاج نے بلتی، کھوار، شنا، بروشسکی اور دیگر زبانوں اور ان کی بولیوں پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ شنا زبان کی 12 بولیاں ہیں۔ کشمیری اور کوہستانی لہجے بھی اہم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلتی اور شنا کی لوریاں بہت میٹھی سمجھیں جاتی ہیں۔ احسان علی دانش نے بتایا کہ گلگت، سکردو، ہنزہ، خپلو اور دیگر علاقوں میں ادبی اور ثقافتی تنظیمیں ادب وثقافت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
جناب محمد یوسف حسین آبادی نے بلتستان کی تاریخ اور ادب و ثقافت کے حوالے سے اپنے تحقیقی کام کا تعارف کرایا۔ انھوں نے بتایا کہ میٹرک کے بعد انھیں قرآن فہمی کا شوق پیدا ہوا تو انھوں نے کئی سال قران، تفاسیر اور عربی گرامر کا مطالعہ کیا۔ جب عربی زبان و ادب کے قواعد پر عبور حاصل ہوا تو انھوں نے تقریباً سوا چار سالوں میں قرآن مجید کا بلتی زبان میں ترجمہ کیا۔ جناب محمد یوسف حسین آبادی نے کہا کہ انھوں نے سکردو میں ذاتی حیثیت سے ایک عجائب گھر قائم کیا ہے جو انھی کے نام سے معنون ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش ساڑھے چھ ہزار نوادرات محفوظ ہیں جس میں زیادہ تر ثقافت و مذہب سے متعلق ہیں۔ ان میں بدھ مت کے نسخے بھی شامل ہیں۔ اس میوزیم میں بہت ہی قیمتی اور نادر قلمی نسخے اور مخطوطات بھی شامل ہیں جن کی تاریخی و فنی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عجائب گھر سے منسلک ایک لائیبریری بھی ہے جس میں تقریبا ڈھائی تین ہزار کتب موجود ہیں جو زیادہ تر گلگت بلتستان سے متعلق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلتستان کے حوالے سے جو بھی کتاب چھپتی ہے وہ اسے خرید کر اپنی لائیبریری میں شامل کر لیتے ہیں۔ جناب محمد یوسف حسین آبادی نے کہا کہ انھوں نے ذاتی طور ایک نظامِ تعلیم بنایا ہے جس میں کئی سکول اور دو کالج شامل ہیں۔ انھوں نے گلگت بلتستان میں سیاحت پر بھی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پر کشش ہیں۔
جناب احسان علی دانش نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اردو میں بھی ہہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں اور ناول کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جناب حسن حسرت اور جناب غلام حسن حسنی نے افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ جناب احسان علی دانش نے بتایا کہ انھوں نے علامہ اقبال کی کئی نظموں کا بلتی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ انھوں نے “بچے کی دُعا” ع: ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری’ کا بلتی زبان میں ترجمہ پیش کیا اور داد سمیٹی۔ جناب عبد الخالق تاج نے اپنے اردو اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔
گلگت بلتستان کے اہلِ قلم کے ساتھ اِس نشست میں آخر پر صدر نشیں اکادمی ادبیاتِ پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف بھی شامل ہوئیں۔ انھوں نے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ صدر نشیں نے جناب یوسف حسین آبادی سے آکادمی کے ادبی میوزم کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔جناب یوسف حسین ابادی نے صدر نشیں کو اپنی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
نشست کے شرکا میں صدر نشیں ڈاکٹر نجیبہ عارف، جناب محمد یوسف حسین آبادی، جناب عبد الخالق تاج، جناب احسان علی دانش، جناب داؤد کیف، جناب محمد عاصم بٹ، جناب حمزہ حسن شیخ، جناب محمد وسیم فقیر، جناب شبیر، جناب محمد سعید، محترمہ شامین عمران، محترمہ خدیجہ بی بی ودیگر شامل تھے۔