محمود کھوکھر

آئی ٹی این ای کے چیئرمین شاہد محمود کھوکھر کی خدمات کو صحافی اور میڈیا ورکرز ہمیشہ یاد رکھیں گے

تحریر: سید مجتبیٰ رضوان

آئی ٹی این ای کے چیئرمین شاہد محمود کھوکھر کی خدمات کو صحافی اور میڈیا ورکرز ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ یہ کوئی رسمی جملہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انہوں نے پاکستان میں میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں انصاف، عزتِ نفس اور پیشہ ورانہ وقار کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ وہ ایک ایسے وقت میں آئی ٹی این ای کے چیئرمین بنے جب صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اپنے حقوق کے لیے قانونی محاذ پر بے شمار مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن ان کی بصیرت، خلوص اور قانون کی گہری سمجھ نے نہ صرف ادارے کو فعال بنایا بلکہ اس کے وقار کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

ان کی قیادت میں آئی ٹی این ای نے وہ کام کیے جو پہلے محض فائلوں میں دبے رہتے تھے۔ میڈیا مالکان اور کارکنوں کے درمیان تنازعات ہوں یا تنخواہوں اور مراعات کے مسائل — شاہد محمود کھوکھر نے ہر کیس کو انسانیت اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ نمٹایا۔ ان کا یقین تھا کہ میڈیا ورکرز ریاست کے ترجمان ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ دراصل جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ہے۔ اسی لیے انہوں نے ادارے کے ہر فیصلے میں شفافیت اور غیر جانب داری کو مرکزی اصول بنایا۔

شاہد محمود کھوکھر کے دور میں کئی اہم مقدمات نمٹائے گئے جنہوں نے نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے کیے بلکہ صحافتی برادری کو اعتماد بھی دیا۔ ان میں ایک اہم کیس ایک معروف نجی ٹی وی چینل کے درجنوں ملازمین کا تھا جنہیں کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی تھیں۔ جب یہ کیس آئی ٹی این ای میں پیش ہوا تو عموماً توقع یہی تھی کہ فیصلہ برسوں بعد آئے گا، لیکن چیئرمین شاہد محمود کھوکھر نے اسے ترجیحی بنیادوں پر سنا۔ وہ خود روزانہ کی پیش رفت کا جائزہ لیتے، وکلاء کے دلائل سنتے، ریکارڈ کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے اور آخرکار ایسا فیصلہ صادر کیا جس کے تحت ادارے کو ملازمین کے تمام واجبات، اوور ٹائم الاؤنس اور بقایا جات کے ساتھ ادائیگی کا پابند کیا گیا۔ اس فیصلے نے درجنوں گھروں کے چولہے روشن کیے اور درجنوں چہروں پر مسکراہٹ لوٹا دی۔

اسی طرح ایک صوبائی خبر رساں ادارے سے وابستہ ایک خاتون رپورٹر کا کیس بھی ان کی عدالتی بصیرت کا مظہر ہے۔ خاتون رپورٹر نے اپنے ادارے پر ہراسانی اور غیر منصفانہ برطرفی کا الزام لگایا تھا۔ ماضی میں ایسے معاملات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا تھا، لیکن شاہد محمود کھوکھر نے اس کیس کو بڑی سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے تمام ثبوت اور گواہوں کے بیانات کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا، دونوں فریقین کو مکمل موقع دیا، اور پھر ایسا فیصلہ دیا جو نہ صرف متاثرہ خاتون کے حق میں تھا بلکہ اس نے پورے میڈیا سیکٹر کو یہ پیغام دیا کہ خواتین صحافیوں کے حقوق کی پامالی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان کے فیصلے کے بعد متعدد اداروں نے اپنی اندرونی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اور خواتین کے لیے زیادہ محفوظ ماحول فراہم کرنے کے اقدامات کیے۔

ایک اور مثال وہ کیس ہے جس میں ایک بڑے اخبار کے سابق فوٹو جرنلسٹ نے بیس سالہ خدمات کے باوجود ریٹائرمنٹ بینیفٹس نہ ملنے پر درخواست دائر کی تھی۔ شاہد محمود کھوکھر نے ذاتی طور پر اس کیس کی نگرانی کی۔ انہوں نے اخباری ادارے کے مالکان کو بارہا طلب کیا اور اس وقت تک سماعت ملتوی نہیں کی جب تک تمام واجبات ادا نہ ہوئے۔ ان کا یہ طرزِ عمل بتاتا تھا کہ وہ صرف فیصلے نہیں دیتے بلکہ انصاف کے نفاذ کو یقینی بناتے ہیں۔

ان کی زیرِ قیادت آئی ٹی این ای نے پہلی بار آن لائن شکایتی نظام متعارف کروایا جس کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافی بھی اپنی درخواستیں جمع کرا سکتے تھے۔ یہ نظام شفافیت اور رسائی کے حوالے سے ایک انقلابی قدم تھا۔ اس سے قبل اکثر میڈیا ورکرز کو صرف اس وجہ سے انصاف نہیں مل پاتا تھا کہ وہ دارالحکومت تک رسائی نہیں رکھتے تھے، مگر شاہد محمود کھوکھر نے اس فاصلے کو ٹیکنالوجی کے ذریعے ختم کر دیا۔

ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے مقدمات کی سماعت کے دوران تاخیری حربے استعمال کرنے والے فریقین کے خلاف سخت پالیسی اپنائی۔ وہ سمجھتے تھے کہ انصاف کی تاخیر، انصاف کے انکار کے مترادف ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے دور میں کئی برسوں سے زیرِ التوا مقدمات نمٹا دیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے دور میں فیصلوں کی شرح 65 فیصد تک بڑھ گئی جو کہ اس ادارے کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

شاہد محمود کھوکھر کے فیصلے محض قانونی موشگافیوں پر مبنی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں انسانی پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ “قانون کا اصل مقصد انصاف ہے، اور انصاف وہی ہے جو انسان کے دل کو مطمئن کر دے۔” ان کے اسی اصول کی جھلک ان کے ہر فیصلے میں نظر آتی۔ ان کے دور میں آئی ٹی این ای صرف ایک قانونی ادارہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی فلاحی پلیٹ فارم بن گیا جہاں میڈیا ورکرز کو اعتماد کے ساتھ اپنی بات رکھنے کا موقع ملا۔

ان کے فیصلوں کی شفافیت کی ایک مثال وہ ہے جب انہوں نے ایک کیس میں دونوں فریقین کے وکلاء کو کمرہ سماعت میں بیٹھا کر تمام دستاویزات کی اوپن ویریفکیشن کرائی۔ انہوں نے کسی ایک فریق کو بھی خصوصی رعایت نہیں دی، حتیٰ کہ سماعت کے دوران اگر کوئی وکیل یا نمائندہ کسی غیر اخلاقی بات پر اترتا تو وہ بڑی نرمی مگر سختی سے اسے قانون کے دائرے میں رہنے کی تلقین کرتے۔ اس سے ان کا وقار اور ادارے کا اعتبار مزید مضبوط ہوا۔

شاہد محمود کھوکھر کی کامیابیوں میں ایک اور سنگ میل وہ اقدام تھا جب انہوں نے میڈیا ورکرز کی تنخواہوں اور مراعات کے معاملات کو قومی سطح پر مربوط کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے وزارتِ اطلاعات و نشریات، پی ایف یو جے، اور مختلف نیوز اداروں کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کر کے ایک مشترکہ فریم ورک تیار کیا جس میں ورکنگ کنڈیشنز، تنخواہوں کی حد، اوور ٹائم پالیسی، اور ادارہ جاتی تحفظات کے اصول واضح کیے گئے۔ یہ اقدام آج بھی آئی ٹی این ای کی پالیسی ریفارمز میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

شاہد محمود کھوکھر نے ہمیشہ نوجوان صحافیوں کی تربیت اور رہنمائی کو ترجیح دی۔ ان کے دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے۔ وہ اکثر نوجوان رپورٹرز کو مشورہ دیتے کہ پیشہ ورانہ دیانت، صبر اور تحقیق ہی صحافت کا حسن ہے۔ کئی مواقع پر وہ خود میڈیا ہاؤسز میں گئے اور تربیتی سیشنز میں خطاب کیا، جہاں انہوں نے نہ صرف قانون کی باریکیوں پر روشنی ڈالی بلکہ صحافتی ذمہ داریوں کے اخلاقی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “آزادیٔ صحافت اپنی جگہ مقدس ہے، لیکن اس کے ساتھ جوابدہی اور دیانت کا توازن قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔”

ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی۔ وہ بظاہر نرم گفتار مگر اندر سے فولادی عزم رکھتے تھے۔ ان کی گفتگو میں سنجیدگی، اور فیصلوں میں ٹھوس دلیل پائی جاتی تھی۔ وہ کسی دباؤ یا سفارش کے قائل نہیں تھے۔ کئی بار ایسے مواقع بھی آئے جب بڑے اداروں کے نمائندوں نے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی مگر وہ اپنی اصول پسندی پر قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلے آج بھی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

شاہد محمود کھوکھر نے خواتین میڈیا ورکرز کے مسائل کے حل میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ ان کے حکم پر آئی ٹی این ای میں ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا جہاں خواتین صحافی اپنی شکایات علیحدہ طور پر درج کرا سکتی تھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ خواتین کے کیسز میں مکمل رازداری، احترام اور حساسیت برقرار رکھی جائے۔ اس اقدام نے نہ صرف خواتین صحافیوں کا اعتماد بحال کیا بلکہ ان کے ادارے کے تئیں احساسِ تحفظ بھی پیدا کیا۔

ان کی قیادت میں ادارے نے پہلی بار اپنے فیصلوں کی سالانہ رپورٹ مرتب کی جس میں شفاف اعدادوشمار، کیسز کی تفصیل، فیصلوں کے نتائج اور اصلاحات کا خاکہ شامل تھا۔ یہ رپورٹ بعد میں وزارتِ اطلاعات کے ریکارڈ کا حصہ بنی اور کئی دیگر اداروں نے بھی اسی طرز پر اپنی رپورٹس مرتب کرنا شروع کیں۔

آئی ٹی این ای کی کارکردگی میں بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں ملک کے کئی حصوں سے موصول ہونے والی درخواستوں میں اضافہ ہوا — اس کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا ورکرز کو یقین ہو چلا تھا کہ یہاں ان کی بات سنی جائے گی۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے درجنوں ورکرز نے پہلی بار اپنی شکایات اس ادارے کے ذریعے پیش کیں اور انصاف پایا۔

ان کا طرزِ عمل ہمیشہ مثبت، شفاف اور ہمدردانہ رہا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ “ادارہ انسانوں سے بنتا ہے، فائلوں سے نہیں۔ اگر ہم انسانوں کو مطمئن کر لیں تو ادارہ خود بخود مضبوط ہو جاتا ہے۔” یہی سوچ ان کے ہر قدم، ہر فیصلے اور ہر ملاقات میں جھلکتی تھی۔

ان کی رخصتی کے بعد جب مختلف صحافتی تنظیموں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تو سب کے لبوں پر ایک ہی جملہ تھا — کہ شاہد محمود کھوکھر نے اپنے کردار سے یہ ثابت کر دیا کہ ایک ایماندار، دیانت دار اور نڈر افسر پورے نظام میں انقلاب لا سکتا ہے۔

ان کی دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی تنخواہ یا مراعات کے بجائے ہمیشہ ادارے کے ملازمین کی سہولتوں پر بات کرتے۔ انہوں نے آئی ٹی این ای کے اندرونی عملے کے لیے بھی مراعات اور ٹریننگ پروگرام متعارف کرائے تاکہ ادارہ اندر سے مضبوط ہو۔

شاہد محمود کھوکھر ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے انصاف کو فائلوں سے نکال کر دلوں تک پہنچایا۔ ان کا دورِ قیادت محض انتظامی کامیابی نہیں بلکہ ایک تحریک تھی — ایسی تحریک جو صحافیوں کے وقار، ان کے حقِ روزگار اور ان کی پیشہ ورانہ عزت کے تحفظ کے لیے اٹھائی گئی۔

جب کبھی میڈیا کی آزادی، صحافیوں کے حقوق اور انصاف کی فراہمی کی بات ہو گی، شاہد محمود کھوکھر کا نام احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ ان کے فیصلے، ان کی اصلاحات اور ان کی سچائی ہمیشہ رہنمائی کا ذریعہ رہیں گے۔ وہ ایک عہد تھے — دیانت، شفافیت اور خدمت کا عہد — جسے صحافتی برادری کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

آئی ٹی این ای کے در و دیوار آج بھی ان کی خدمت، ان کے خلوص اور ان کے انصاف کے گواہ ہیں۔ ان کے بعد آنے والے چیئرمینز کے لیے یہ ایک چیلنج بھی ہے اور ایک رہنمائی بھی کہ وہ اس معیار کو برقرار رکھیں جو شاہد محمود کھوکھر نے قائم کیا۔ وہ چلے گئے مگر اپنے فیصلوں، اپنی انسان دوستی اور اپنی نیک نامی کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

میڈیا ورکرز کے دلوں میں ان کی یاد ایک عہد کی طرح محفوظ ہے — ایک ایسے عہد کی جو خدمت، قانون اور انسانیت کے ملاپ سے وجود میں آیا۔ شاہد محمود کھوکھر صرف ایک چیئرمین نہیں تھے، وہ ایک رہنماء، ایک استاد اور ایک محافظ تھے — جن کی خدمات کو آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

ٹرمپ Previous post وزیراعظم شہباز شریف کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان
آذربائیجان Next post آذربائیجان: ریلوے ملازمین کو "لیبر” آرڈر اور "ترقی” میڈل سے نوازا گیا