جموں و کشمیر

جب ریاست جموں و کشمیر کی خودمختاری پر شبخون ماراگیا

تقسیم ہند کے 3جون 1947 ء کے منصوبے کے مطابق ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرح ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو بھی اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ قدرتی طور پر چونکہ دریاؤں، ہواؤں اور ریاست کے تمام زمینی راستوں کا رخ پاکستان کی طرف تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی عوام کے مذہبی، لسانی، ثقافتی اور تہذیبی روابط صدیوں سے پاکستان کے ساتھ ہی استوار تھے اور اسی تعلق کی بناء پر انہوں نے 19جولائی 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا لیکن عوام کی خواہشات کے برعکس ایک طےشدہ منصوبے کے تحت مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947ء کو ریاست کے الحاق کی ایک مشکوک دستاویز بھارت کے حوالے کی اور اسی کو بنیاد بنا کر بھارت نے بزور طاقت ریاست کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے کشمیر پر قبضے کے بعد اپنے کاسہ لیس کشمیری راہنماؤں کو رام کرنے کے لیے 1949ء میں اپنے آئین میں دفعہ370 کو متعارف کروایا جس کے تحت ریاست کو بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے اندرونی خودمختاری، اپنی اسمبلی، آئین اور جھنڈے کا حق بھی دیا گیا اور ایک ذیلی شق 35A کو بھی شامل کیا جس کے ذریعے دراصل 1927ء کے اس قانون کو تحفظ دیاگیا جس کے تحت ریاستی باشندوں کے علاوہ کسی کو بھی ریاست میں جائیداد کی خرید و فروخت کی ممانعت کی گئی تھی اور یہی دفعات کشمیر کو اٹوٹ انگ بنانے کی بھارتی خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے معاملے میں سب سے آگے تھی اور وہ اپنی انتخابی مہمات میں بھارتی شدت پسند طبقات کو خوش کرنے کے لیے ان دفعات کی منسوخی کا وعدہ بھی کرتی آئی تھی جو اس نے 5اگست 2019ء کو ریاست کی خودمختاری پر شب خون مار کر پورا کر دیا۔ یہ دن ریاست کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے اپنا اٹوٹ انگ بنانے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کر دی۔ بھارت کا یہ اقدام غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری تھا جس کا مقصد کشمیریوں کے حق خودارادیت کی پامالی اور ریاست کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنا تھا اور یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی بھی تھی جن میں بھارت کو ریاست میں رائے شماری کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کا کہا گیا تھا نہ کہ ریاست کو اپنے اندر ضم کرنے کا۔

بھارتی حکومت نے یہ اقدام کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان دفعات کی وجہ سے ریاست کی ترقی، تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل تھیں وہ ختم ہو جائیں گی کیونکہ غیر ریاستی سرمایہ کاروں کو وہاں رہائشی اور زمین کی خریداری کے حقوق حاصل نہیں تھے جس کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری کے مواقع محدود تھے اور اس خطے کو قومی وسائل اور منڈیوں تک براہ راست رسائی بھی حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے جی ڈی پی میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اب ان رکاوٹوں کے دور ہونے سے ریاست میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اور روزگار کے نئے اور جدید مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا لیکن سات سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بھارت کے دعووں کی کوئی عملی صورت سامنے نہیں آئی اور ریاست کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی منظرنامے میں بہتری کے کوئی بھی آثار نظر بھی نہیں آئے۔ بی جے پی کی حکومت کے اس غیر اخلاقی اور غیر جمہوری فیصلے کے خلاف بھارت کی ہی جمہوریت پسند جماعتوں نے بھارتی عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اوراس عدالت نے 11 ستمبر 2023ء کو حکومت کے اس فیصلے کو درست قرار دے دیا جس سے نہ صرف جمہوری اصولوں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کے اپنے تاریک مستقبل کے بارے میں خدشات کو بھی مزید مستحکم کر دیا۔ مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اسے اپنا آئینی حصہ بنا کر بظاہر تو بھارت دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب تو ہو گیا ہے لیکن اسے یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ انسانی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے اور جابر اقوام کو یاد دہانی بھی کرواتی رہتی ہے کہ فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہوتی ہیں کہ جب بھی کسی کمزور اور مظلوم قوم کو بزور طاقت زیرنگیں اور اس کے حق کو غصب کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیرجابروں اور غاصبوں کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اس نے اپنی عزم صمیم سے انہیں شکست فاش سے دوچار کیا۔ کشمیری قوم بھی اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور وہ دشمنوں کی آتشین توپ و تفنگ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ہے۔ بقول علامہ محمد اقبال:

؎ گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو!!!
تھرتھراتا ہے جہان چار سو و رنگ و بو!!!

کشمیری عوام کا پختہ عزم ہے کہ وہ اپنے بلندوبالا مقصد کے حصول تک کسی بھی خوف و دہشت کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گے اور وہ اپنا جائز اور تسلیم شدہ حق حاصل کر کے رہیں گے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔کشمیری عوام کا مصمم ارادہ ہے کہ وہ بھارت کی جابر و قاہر افواج کے ناپاک قدموں سے اپنی سرزمین کو پاک کر کے رہیں گے اور لہو لہو چناروں کی یہ سرزمین ایک مرتبہ پھر جنت ارضی کا نمونہ پیش کرے گی۔ ریاست جموں وکشمیر کے عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہر سال 5 اگست کا دن ”یوم استحصال” کے طور پر اس لیے مناتے ہیں کہ وہ دنیا کو باور کرواسکیں کہ انہوں نے اپنی سرزمین پر بھارتی ناجائز اور غاصبانہ قبضے کو نہ پہلے تسلیم کیا اور نہ آئندہ کریں گے اور ان کی جدوجہد اپنے جائز اور تسلیم شدہ حق ارادیت کے حصول تک جاری رہے گی!!!

بقول افضال صدیقی:
؎ تغیر کے اجالوں تک ہمیں بڑھتے ہی جاناہے!!!
جہالت کی صفوں کو چیر کر رستہ بناناہے!!!
تمنا شب پرستوں کی کہ سحرہونے ہی نہ پائے!!!
ہمیں صبح فروزاں کے یقیں کو جگمگانا ہے!!!

بوسنیا Previous post بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت
خانکندی Next post خانکندی میں آذربائجانی ڈائسپورا یوتھ کے چھٹے سمر کیمپ کا افتتاح