عدلیہ اور وزرائے اعظم: طاقت، سیاست اور احتساب کی داستان
قیام پاکستان 1947ء سے اب تک وزیراعظم کے عہدے کو عدالتی جانچ کا سامنا رہا ہے۔ عدلیہ نے کئی وزرائے اعظم کو سزا دی اور نااہل قرار دیا، جس سے نہ صرف ان کے سیاسی کیریئر متاثر ہوئے بلکہ پاکستان کے جمہوری نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے فوجی مارشل لاء کے ذریعے ہوا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا اور نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں ٹرائل ہوا۔ یہ مقدمہ، جو سیاسی محرکات کے باعث وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنا، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا اور 4 اپریل 1979ء کو ان کی پھانسی پر منتج ہوا۔ یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے متنازع ترین فیصلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو، جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، نے اپنی حکومت کے دوران اور بعد میں عدالتی جانچ کا سامنا کیا۔ اگرچہ ان کی حکومتوں کو بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات پر دو بار برطرف کیا گیا، تاہم ان کے خلاف 1999ء میں احتساب عدالت نے ان کی غیر موجودگی میں بدعنوانی کے الزامات پر پانچ سال قید اور عوامی عہدے کے لیے نااہلی کی سزا سنائی۔ تاہم، یہ فیصلہ 2001ء میں ناکافی شواہد اور قانونی خامیوں کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف، جو تین غیر مسلسل ادوار (1990-1993، 1997-1999، اور 2013-2017) میں وزیراعظم رہے، کے سیاسی کیریئر میں بھی متعدد سزائیں شامل ہیں۔ ان کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی بغاوت کے ذریعے ان کا اقتدار ختم ہوا۔ بعد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انہیں جہاز کو لینڈنگ کی اجازت نہ دینے کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی، جو ایک معاہدے کے تحت جلاوطنی پر ختم ہوئی۔ ان کے تیسرے دورِ حکومت کا اختتام 2017ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی پر ہوا۔ یہ نااہلی پاناما پیپرز میں ظاہر ہونے والے بدعنوانی کے الزامات کے باعث ہوئی، جس کے بعد احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی۔
سید یوسف رضا گیلانی، جنہوں نے 2008ء سے 2012ء تک بطور وزیراعظم خدمات انجام دیں، کو 19 جون 2012ء کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا۔ یہ نااہلی اس بنا پر تھی کہ انہوں نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت نے سید یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا، جس سے ان کی وزارتِ عظمیٰ کا خاتمہ ہوا ۔
راجہ پرویز اشرف، جو سید یوسف رضا گیلانی کے جانشین تھے، نے بھی قانونی چیلنجز کا سامنا کیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی مدت مکمل کی، لیکن رینٹل پاور پروجیکٹس کرپشن کیس میں ان کا نام شامل کیا گیا۔ تحقیقات اور مقدمات ابھی جاری ہیں، لیکن ان کا نام وزیراعظم کے طور پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، جو 2018ء سے 2022ء تک وزیراعظم رہے، بھی پاکستان کی سیاسی و عدالتی کشمکش کا شکار ہوئے۔ 2023ء میں توشہ خانہ کیس میں انہیں سزا سنائی گئی، جس میں ان پر ریاستی تحائف کے غلط استعمال اور غیر قانونی طور پر انہیں فروخت کرنے کے الزامات تھے۔ اس سزا کے نتیجے میں انہیں تین سال قید اور انتخابات سے نااہل قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ سزا بعد میں معطل کر دی گئی،
17 جنوری 2025ء کو عدلیہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو مالی بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں سزا سنائی۔ یہ فیصلہ ایک خصوصی احتساب عدالت نے سنایا، جس میں الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں عوامی فنڈز کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔ عدالت نے انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی، بھاری جرمانہ عائد کیا، اور عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو ملک کے سیاسی اشرافیہ کے احتساب کے لیے عدلیہ کی کوششوں کا حصہ قرار دیا گیا، لیکن اس پر فیصلے کی غیر جانبداری کے بارے میں بھی بحث جاری ہے۔
ان سزاؤں کی مجموعی داستان ظاہر کرتی ہے کہ عدالتی کارروائیاں اکثر سیاسی تنازعات سے جڑی ہوتی ہیں۔ جہاں کچھ رہنماؤں کو واقعی بدعنوانی یا بدانتظامی کے الزامات کا سامنا تھا، وہیں کچھ بظاہر سیاسی محرکات پر مقدمات کا شکار ہوئے۔ ملک کے رہنماؤں کی بار بار قانونی مشکلات حکومت اور احتساب کی نازک حالت کو ظاہر کرتی ہیں، اور عدالتی عمل کی غیر جانبداری اور سیاسی ایجنڈوں کے اثرات پر سوالات اٹھاتی ہیں۔
قرآن و حدیث حکومت میں انصاف اور غیر جانبداری کے اصولوں پر زور دیتے ہیں۔ سورۃ النساء (4:135) میں مومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انصاف پر ثابت قدم رہیں، چاہے وہ خود یا ان کے رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے احتساب میں امتیاز کے خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: “تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ غریبوں پر سزا نافذ کرتے تھے اور امیروں کو معاف کر دیتے تھے” (صحیح بخاری)۔ یہ تعلیمات غیر جانبدار اور منصفانہ انصاف کی ضرورت پر زور دیتی ہیں، جو عدالتی کارروائیوں کے معیار کے لیے معیار ہونی چاہیے۔
اگرچہ وزرائے اعظم کو احتساب کے دائرے میں لانے میں عدلیہ کا کردار قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، لیکن اکثر اس پر اختیارات سے تجاوز اور انصاف کے غیر منصفانہ اطلاق کے الزامات لگتے ہیں۔ عدالتی اقدامات کو قرآنی اصولوں کے مطابق انصاف اور شفافیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ریاستی اداروں پر اعتماد کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔