
کشمیر پاکستان کا قدرتی اٹوٹ انگ
کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی تعلق صدیوں پہلے کرہ ارض وجود میں آ نے کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا۔ قدرت نے خطہ کشمیر کے شمال میں کوہ ہمالیہ اور مشرق میں پیرپنجال کے پہاڑی سلسلے کاایک حصار قائم کر کے اسے بیرونی دست برد سے محفوظ بنا دیا اور اس کی ہواؤں، فضاؤں، پانیوں، خوشبوؤں اور اس کے باسیوں کی خواہشات و امنگ اور امید و یقین کا رخ بھی مغربی جانب موجودہ پاکستان کے علاقوں کی طرف موڑ کر ان کے درمیان ایک لافانی رشتہ قائم کر دیا۔ ریاست میں جب اسلام کے نورکی کرن چمکی تو یہ علاقے اسلامی اخوت کے ایک انمٹ رشتے میں بھی بندھ گئے۔ ریاست اپنے قدرتی حسن و جمال اور بےپناہ قدرتی وسائل کی وجہ سے بیرونی طالع آزماؤں کا مطمع نظر رہی اور مقامی حکمرانوں کے بعد مغل، افغان، سکھ، انگریز اور پھر ڈوگرے اس پر قابض رہے اور ان ادوار میں جب بھی ریاستی مسلمانوں پر افتاد پڑی تو ان کی جائے پناہ یہی علاقے ٹھہرے۔
1857 ء کے بعد جب ہندوستان میں بیداری کی لہر اٹھی اور جس نے آگے چل کر اسلامیان ہند میں ایک علیحدہ وطن کی خواہش پیدا کردی تو ریاستی مسلمان کی امیدیں بھی جاگ اٹھیں۔ 30دسمبر 1930ء میں الہ آباد میں فرزندکشمیر علامہ محمد اقبال کی طرف سے جب کل برصغیر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کے مستقبل کے علیحدہ وطن کی سرحدات کی نشاندہی کی تو اس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل تھی اورجب 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کی انتھک محنت اور مساعی جمیلہ سے قرارداد پاکستان متفقہ طور پر منظور ہوئی تو اس میں پونچھ کے مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی قیادت میں ریاستی مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے لاہور جاکر بانی پاکستان سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ اس قراداد کی دوٹوک حمایت و تائید کا اعلان بھی کیا۔
قائداعظم کو ریاستی مسلمانوں کی آزمائشوں اور مصائب کا بخوبی ادراک تھا اور وہ اپنی قدرتی سیاسی بصیرت سے اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ کشمیری مسلمانوں کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے 1944ء کے اپنے سری نگر کے دورے میں ریاستی قیادت کو پاکستان کی غرض و غایت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت کی وجہ سے آنے والے خطرات کے بارے میں انتباہ بھی کیا لیکن شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے چند مفادات کے لیے ہندو کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا جس کے بھیانک نتائج ریاستی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر نے شیخ عبداللہ کے ارادوں کو بھانپ کر پاکستا ن کے قیام سے قبل ہی 19جولائی 1947ء کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ سرینگر پر قائم مقام صدر کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس چوہدری حمیداللہ کی صدارت میں جنرل کونسل کے اجلاس میں خواجہ غلام دین وانی اور عبدالرحیم وانی کی طرف سے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی اور مہاراجہ سے عوام کی خواہشات، ان کی مذہبی، ثقافتی، لسانی اور جغرافیائی قربت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے الحاق کے سلسلے میں عملی اقدام کا مطالبہ کیا لیکن مہاراجہ نے انگریزوں اور بھارتی سیاستدانوں کے ساتھ طے شدہ منصوبے کے مطابق کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن کشمیری عوام نے ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ جمہوری دنیا میں الحاق کی قراردادیں دن کی روشنی میں، سب لوگوں کی موجودگی میں ہوتی ہیں نہ کہ بند کمروں میں خفیہ سازباز سے یا اپنے ہی عوام کے ڈر سے بھاگتے ہوئے۔ کشمیری قوم نے جب ببانگ دہل پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو اس اعلان پر پہرہ بھی دیا اور ا س سے روگردانی کرنے والوں کا پیچھا بھی کیا۔ بھارت کو جب کشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دیا تو واویلا کرتے ہوئے اس نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے اسے مکمل شکست سے تو بچا لیا لیکن کشمیر کے مسئلے کو مستقل کھٹائی میں ڈال دیا جو گذشتہ 78 سالوں سے ہنوز حل طلب چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کا مدلل مقدمہ پیش کیا اور اپنی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کے ساتھ ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا جس کی پاداش میں پاکستان پر پانچ جنگیں مسلط کی گئیں اور اسے معاشی، معاشرتی، لسانی، ثقافتی اور جغرافیائی دہشتگردی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
جغرافیائی طورپر کشمیر پاکستان کا جزولاینفک ہے اور ان کے عوام کے درمیان بھی محبت کا اٹوٹ رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظیم سے عظیم تر اور وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد دراصل تکمیل پاکستان کی جنگ ہے جس میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں نے بھی اپنا تن من دھن نچھاور کیا ہے جس کا مظاہرہ حالیہ جنگ مئی میں پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب بھارت نے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں پاکستان اور آزادکشمیر کے مختلف علاقوں پر حملہ کیا تو پاکستانی اور کشمیری عوام اپنی مسلح افواج کے دست وبازو بنے اور اس کے پیچھے انتہائی جرأت اور استقامت سے کھڑے ہو گئے۔ دنیا کی بہادر سے بہادر افواج کبھی بھی اپنے عوام کی مدد و حمایت بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں اور پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے پاکستانی اور کشمیری عوام کی تائید و نصرت سے اپنے سے انتہائی بڑی فوج کو، جوکہ ہرطرح کے کیل کانٹے سے لیس تھی، اسے اس کے غرور و تکبر سمیت زمین بوس کر کے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھادی۔
پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی۔ پاکستان ہر وقت ہر موقع پر اقوام متحدہ کو اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرتا آیا ہے اور اسے باور کراتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ابھی تک حل نہ ہونا اس ادارے کی اپنی ساکھ اور اس کی افادیت پر سوالیہ نشان بھی ہے اس کے علاوہ بھارت کو بھی اس کے پہلے وزیراعظم جوہر لال نہرو کے کشمیریوں سے کیے ہوئے وعدے کو بھی یاد دلاتا رہتا ہے لیکن بھارت نے اپنی طاقت کے نشے میں اسے کبھی اہمیت نہ دی جو اس کے ایک بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کی نفی بھی ہے۔
بھارت کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور پاکستان اس سے دستبردار ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی تحریک کی حمایت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنا جائز اور مسلمہ حق حاصل نہیں کرلیتے۔19جولائی 1947ء کی الحاق پاکستان کی قرارداد محض ایک کاغذ کا پرزہ نہیں تھا اور نہ ہی کشمیر اور پاکستان کا اٹوٹ رشتہ کسی دستاویز کا محتاج تھا بلکہ یہ قرارداد مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے دلوں کی آواز اور ان کی امیدوں، خواہشوں اور جذبات و احساسات کی ترجمان تھی۔ انشاءاللہ! وہ وقت بھی جلد آنے والا ہے جب اس قرارداد پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو گا اور کشمیری عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گی اور اسی وقت حقیقی معنوں میں تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق پاکستان کی تکمیل بھی ہوگی۔ بقول نسیم سیفی:
؎ کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔ جب سارا اٹھے گا پاکستان
آزادی کے ایجنڈے کی ۔۔ تکمیل کرے گا پاکستان
اپنے اس سچے دعوے سے ۔۔ پیچھے نہ ہٹے گا پاکستان
اللہ کی مدد سے ایک نئی ۔۔ تاریخ لکھے گا پاکستان