
بھارت کا یوم جمہوریہ کشمیری کیو ں منائیں؟

جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنا تسلط جمایا تو اس کے ساتھ ساتھ اس سے منسلکہ 565 ریاستیں بھی ان کے تصرف میں آگئیں جن میں ایک ریاست جموں وکشمیر بھی تھی۔ ریاست جموں و کشمیر اپنے قدرتی وسائل کی فراوانی اور قدرتی حسن کی وجہ سے ہمیشہ انگریز حکمرانوں کا مطمع نظر رہی جسے انہوں نے 16 مارچ 1846ء کو بیعہ نامہ امرتسر کے تحت جموں کے ایک ڈوگرہ سردار گلاب سنگھ کی برطانوی راج کے لیے خدمات کے صلے میں محض 75 لاکھ سکہ نانک شاہی میں اس کے ہاتھ فروخت کر دیا اور یہاں سے ہی کشمیریوں کی بدبختی کا دور شروع ہوتا ہے جو قریباً سو سال تک جاری رہا۔
جب انگریزوں نے برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپٹنا شروع کیا تو انہوں نے 3جون 1947ء میں اقتدار کی منتقلی کا منصوبہ جاری کیا جس کے تحت ہندو اکثریت کے علاقے ہندوستان اور مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل کر کے برصغیر کو دو ممالک میں تقسیم کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کی ملحقہ 565 ریاستوں کو بھی بھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا اور ان کے حکمرانوں کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ کوئی فیصلہ کرتے وقت اکثریت کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھیں۔
اسی اختیار کو بروئےکار لاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بحثیت مجموعی پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا لیکن ریاست کا ہندو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اس سے پہلے ہی بھارتی کانگریس کے راہنماؤں سے سازباز کر چکا تھا۔ جب ریاست کے مسلمانوں کو دباؤ بڑھا تو اس نے سرینگر سے جموں فرار ہوتے ہوئے بھارت سے الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز بھارتی کارندوں کے حوالے کی جس کو بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کی فوجوں نے ڈوگرہ فوج کے ساتھ مل کر پوری ریاست پر قبضہ کر لیا لیکن کشمیری مجاہدین نے ریاست سے ملحقہ موجودہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کے قبائل کی مدد سے ریاست کا کچھ حصہ آزاد کروا کر اپنی حکومت قائم کرلی اور جب یہ مجاہدین سرینگر پر قبضے کے قریب تھے تو بھارت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا جس نے جنگ بندی کروا کر ریاست کے عوام کی رائے جاننے کے لیے ایک استصواب کا اعلان کیا جس پر پاکستا ن اور بھارت نے صاد کیا جبکہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو نے بھی پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کو یہ حق دینے کا وعدہ کیا لیکن واقفان حال کو انہوں نے بتایا کہ یہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے اور وہ کسی صورت کشمیر پاکستان کے حوالے نہیں کریں گے۔ آزادی کے بعد بھارت نے عارضی طوربپر 1935ء کے قانون حکومت ہند کے تحت ا پنا نظم وبنسق چلایا اور 26 جنوری، 1950ء کو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس قانون کی جگہ اپنا نیا آئین نافذ کر کے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز کیا۔
اس آئین کے تحت بھارت 29 ریاستوں اور 7وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھارت نے غیر جمہوری طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی سطح پر اپنے راہنماؤں کے وعدوں سے روگردانی کرتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قراردے دیا اور اپنے آئین میں ریاست سے متعلق خصوصی آرٹیکل 370 شامل کر کے اسے نیم خودمختاری دے دی لیکن اسے بھی 5 اگست 2019ء کو منسوخ کر کے ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اپنی یونین میں شامل کر دیا جو کہ سراسر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھی لیکن عالمی برادری نے اس سے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کی۔ بھارت ہرسال 26جنوری کو اپنے آئین کے نفاذ کی یا دمنانے کے لیے تقریبات کا انعقاد کرتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں بھی یہ مشق دہراتا ہے لیکن بحثیت مجموعی کشمیری اس سے لاتعلق رہتے ہیں اور اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کیونکہ اسی بھارت نے77سالوں سے ان کی سرزمین پر غیرقانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ مسلسل ان کا جائز اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تسلیم شدہ حق ”حق خودارادیت” دینے سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے۔ کشمیریوں کے لیے اسی لیے بھی بھارت کے یوم جمہوریہ کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہی بھارت جو اپنے آپ کو سیکولر اور جمہوری ملک کہتا ہے اس نے کشمیریوں کو اپنے زیر نگین رکھنے کے لیے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
اسی بھارت کی قابض انتظامیہ کے ہاتھوں 21جنوری 1990ء کو سرینگر کے نواحی قصبے گاؤ کدل اور بسنت باغ کے علاقے میں 55 نہتے معصوم کشمیریوں کو صرف اپنی آزادی اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر خاک و خون میں نہلا دیا گیا اورسینکڑوں کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں کی نذر کر دیا گیا جبکہ اس واقعے سے کچھ پہلے ہی گجرات کے بدنام زمانہ قصائی جگموہن کو مقبوضہ کشمیر کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ اسی سال کی 25 تاریخ کو بھارتی فوجیوں نے خون مسلم کو ارزاں جانتے ہوئے بغیر کسی جواز کے ہندواڑہ کے علاقے میں 21 کشمیریوں کو شہید کر کے بھارت کے جمہوری چہرے پر کالک مل دی۔ 1991ء کے ماہ جنوری کی 19 تاریخ کو کشمیریوں کے قتل عام میں مصروف بھارتی سی آرپی ایف کے درندے اپنے نامہ اعمال میں ایک اور سیاہ کارنامے کا اضافہ کرتے ہیں جب سری نگر کے قصبے میگھرمال باغ کے علاقے میں انہوں نے مظلوم رہائشیوں پر دھاوا بول کر 14 نہتے بےگناہوں کو خون میں نہلا کر درجنوں کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا جن کا قصور صرف کشمیری ہونا اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرناتھا۔ ان تمام شہداء کے لواحقین 35 سال گزرنے کے باوجود آج بھی فریادکناں ہیں اور انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کشمیریوں کا قتل عام گذشتہ 77 سالوں سے جاری ہے جس کا صرف اور صرف مقصد انہیں، ” حق خودارادیت ” کے عزم سے باز رکھنا اور ان کے حوصلوں کو توڑنا ہے۔
ہندواڑہ سے لے کر گاؤکدل اور میگھرمال سے لے کے بسنت باغ تک بھارتی بربریت کی داستانیں رقم ہیں۔ یہ دلخراش واقعات اور دلدوز سانحات کشمیریوں کی آنے والی نسلوں کے لیے ایک یاددہانی ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش نہ کریں کہ وہ انتہائی جبروتشدد کے باوجود اپنے حق کے لیے مستعد کھڑے تھے اور ہر قسم کے بہیمانہ حربوں کے باوجود ان کے حوصلوں کو توڑا نہ جاسکا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہر سال ماہ جنوری میں اپنے ان مظلوموں اور بےکسوں کی آہوں اور سسکیوں کی کہانی کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر آزادی کے چراغ کو روشن رکھا۔ ان حالات جبکہ ان سے عزت سے جینے کی خواہش بھی چھین لی گئی ہو اور ابھی تک ان سے کیے گئے وعدوں کے ایفاء ہونے کی نوبت ہی نہ آئی ہو تو وہ بھارت کے یوم جمہوریہ سے لاتعلق نہ رہیں تو اور کیا کریں۔اب اقوام متحدہ اور دنیا کی جمہوری قوتوں کے ضمیر کو امتحان ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا جائزاور قانونی دلوانے کے میدان عمل میں نکلیں اور اپنے آپ کو دنیا کی مظلوم اقوام کا محافظ ہونے اور انہیں جبر و تشدد سے بچانے کے دعوے کو سچ ثابت کریں!!!!!