
ماسکو میں قاسم جومارت توقایف اور ولادیمیر پیوٹن کی غیر رسمی ملاقات، دوطرفہ تعلقات پر تفصیلی گفتگو
ماسکو، یورپ ٹوڈے: قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف منگل کے روز ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے کریملن میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے غیر رسمی ملاقات کی جو اڑھائی گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا۔
صدر توقایف نے اپنے ابتدائی کلمات میں روسی صدر پیوٹن کا پرتپاک استقبال پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قازقستان اور روس کے درمیان کوئی سنجیدہ مسئلہ موجود نہیں ہے۔
ان کے مطابق:
“مسٹر ولادیمیر پیوٹن! سب سے پہلے، میں ماسکو میں پہلے ہی لمحے سے ملنے والی گرمجوشی پر دلی شکرگزاری ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مقدس سرزمین ہے اور آپ کے خیرمقدمی رویے نے مجھے متاثر اور خوش کیا۔ میں نے یہاں روسی دارالحکومت میں حقیقی اپنائیت محسوس کی۔ جہاں تک دوطرفہ تعلقات کا تعلق ہے، وہ اسٹریٹجک شراکت داری اور اتحادی تعلقات کی نوعیت رکھتے ہیں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں ہمارے ممالک کا تعاون نہ ہو۔ ہمارے درمیان کوئی سنگین مسئلہ نہیں۔ اگر کبھی مسائل پیدا بھی ہوں تو وہ صدرِ مملکت اور حکومتوں کی سطح پر باہمی مشاورت سے حل کر لیے جاتے ہیں۔ میں نے آپ کی دعوت کو خوشی سے قبول کیا، اور آج ایک غیر رسمی ماحول میں اپنے کچھ خیالات اور مشاہدات آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع پانے پر خوش ہوں۔”
اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے صدر توقایف کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ تمام اہم امور پر غیر رسمی ماحول میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا:
“مسٹر قاسم جومارت توقایف! سب سے پہلے، میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور جیسا کہ طے ہوا تھا، ریاستی دورے پر تشریف لائے۔ میں اس کے لیے مخلصانہ طور پر آپ کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ ہم مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، تاہم اس نوعیت کے پروٹوکولی دورے بین الاقوامی تعلقات میں اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ آج ہمیں موقع مل رہا ہے کہ ہم غیر رسمی ماحول میں ان تمام امور پر بات کریں جو ہمارے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں، اور کل ہم دوطرفہ تعلقات کے مکمل ایجنڈے پر تفصیلی غور کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس سال کا اختتام بہت اچھے طریقے سے کریں گے اور مستقبلِ قریب اور درمیانی مدت کے لیے بھی واضح منصوبے ترتیب دیں گے۔”
یہ ملاقات قازقستان اور روس کے درمیان اعلیٰ سطحی سیاسی رابطوں اور قریبی اسٹریٹجک تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ایک اور کڑی قرار دی جا رہی ہے۔