کشمیر

شہدائے کشمیر کی امانت ۔۔ 1931ء سے 2025 ء تک

ریاست جموں وکشمیرتیرویں اور چودہویں صدی عیسوی میں اسلام کے نور سے منور ہوئی اور وہ نور باوجود ختم کرنے کی ہر کوشش کے آج بھی اسی طرح تاباں و فروزاں ہے۔ انیسویں صدی میں مغلوں کی ہندوستان پر گرفت کمزور ہونے کے بعد یہاں پر افغانوں اور سکھوں نے قبضہ جمایا اور انہوں نے جی بھر کر مسلمانوں کا استحصال تو کیا لیکن انہوں نے مسلمانوں کے مذہب کے ساتھ کوئی خاص چھیڑ چھاڑ نہیں کی لیکن ریاست کے ڈوگروں کے تصرف میں آنے کے بعد سے یہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب کے لیے ابتلاء و آزمائش کی طویل اور روح فرسا کہانی شروع ہوتی ہے۔

ڈوگرہ حکمران کھلم کھلا ریاستی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرتے تھے حتیٰ کہ 29 اپریل 1931ء میں جموں میں عید کی نمازکا خطبہ ڈوگرہ سپاہیوں نے بزور طاقت رکوا دیا۔ مسلمان ڈوگروں کی اس طرح دیدہ و دانستہ مذہبی معاملات میں مداخلت پر سراپا احتجاج تھے اور ہر روز احتجاجی جلسہ منعقد ہوتا اور تقاریر سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں میں چلے جاتے۔ ایک دن وہاں موجود ایک پٹھان نوجوان عبدالقدیرخان، جو کسی انگریز کا ذاتی ملازم تھا، نے واپس جانے والے لوگوں کو گرجدار آواز میں للکارا اور اس کی ولولہ انگیز تقریز سے جلسہ گاہ نعرہ تکبیر گونجنے لگی۔ اسے لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا۔

جب 13جولائی1931ء کو اس مقدمے کی تاریخ کا اعلان ہوا تو پوری ریاست سے لوگ جوق در جوق سرینگر پہنچنے لگے۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے امن و امان کے خطرے کے پیش نظر جیل کے اندر ہی مقدمے کی کاروائی کا فیصلہ کرلیا۔ اسی دوران ظہر کی نماز کے وقت ایک مرد مجاہد نے جیل کی دیوار پر کھڑے ہو کر اذان دینا شروع کی تو یکلخت ڈوگرہ سپاہی کی ایک گولی نے اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا، اس کے بعد ایک اور مجاہد نے آگے بڑھ کر اذان کا سلسلہ وہیں سے جوڑا لیکن وہ بھی زمین پر آ رہا اس طرح گولیوں کی ترتراہٹ میں اذان جاری رہی اور جب اذان کی تکمیل ہوئی تو 22 فرزندان توحید اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے تھے اور 100کے قریب زخمی حالت میں زمین پر پڑے تھے۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق کو واپس پلٹیں تو ریاست کی تاریخ میں 13جولائی1931ء کا دن ایک ایسا دردناک اور خون آلود دن تھا جس دن ڈوگرہ فوجیوں کی اندھی گولیاں ان فرزندان توحید کے سینوں کو چیر گئیں جو صرف اپنے ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی کر رہے تھے۔اسلام کے متوالوں کی اس اذان کی گونج نے آج بھی پوری ریاست کو اپنے سحرمیں مبتلا کیا ہوا ہے اور آج تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تر و تازہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ اذان اللہ کریم کے نام کی سربلندی کا نام ہے اور اس بات کا بھی اعلان ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی پہچان یہی نام ہے اور جس کی پکار پوری وادی میں ابھی تک بلند ہو رہی ہے۔

ڈوگرہ حکمرانوں کے بعد بھارت بھی کشمیریوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے اور گولیاں برسا برسا کر اس کی ہمت جواب دے گئی ہے لیکن کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کا عزم متزلزل ہوا ہے۔ ریاست میں بھارت کے خلاف نفرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بھارت اس صورتحال سے بوکھلا گیا ہے۔ بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر اوچھے ہتھکنڈے آزمانے لگا اور خود ہی اپنے فوجیوں اور عوام کو مروا کر بغیر کسی توقف کے اس کا براہ راست الزام پاکستان پر لگا دینا اس کا وطیرہ بن گیا چاہے وہ راجوری کا واقعہ ہو پلوامہ یا حالیہ پہلگام کا۔ بھارت عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے بزور طاقت پاکستان کو راستے سے ہٹاکر ریاست جموں و کشمیر پر مکمل قبضے کے اپنے دیرینہ خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتا تھا اوراسی مقصد کے تحت اس نے6 اور 7 مئی کی رات کی تاریکی میں پاکستان پر میزائلوں سے حملہ تو کر دیا لیکن جواباً 10 مئی 2025ء کا دن بھارت کے لیے ہولناک تباہی لے کے آیا جب اس کی قوم اپنی برتری کے زعم اور اپنی طاقت کے نشے میں چور خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی کہ صبح صادق کے وقت پاکستان کی بری اور فضائی افواج کی آسمان تک بلند ہوتی اللہ اکبر کی صداؤں نے ایک خوفناک چنگھاڑ کی صورت میں انہیں جکڑ لیا اور آناً فاناً پورے بھارت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

یہ نعرہ تکبیر اسی اذان کا تسلسل تھا جو 96 سال پہلے سرینگر جیل کے سامنے 22 فرزندان توحید نے اپنے خون سے مزین یہ امانت اگلی نسلوں کو منتقل کی تھی جس کی حفاظت کے لاکھوں کشمیری اور پاکستانیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور جس کی تکمیل 10مئی کو ہوئی جب پورا بھارت روتا پیٹتا اپنی نام نہاد بہادر مہان سینا کی بے بسی اور لاچاری کا ماتم کر رہا تھا۔ اس دن پورے بھارت پر پاکستان کے جانبازوں پر راج تھا اور بھارت اس وقت لاچار و مجبور امن کی بھیگ مانگ رہا تھا۔بھارت کو یہ بات رکھنی چاہیے کہ وہ گذشتہ 78 سالوں سے ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہا تھا کیونکہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور وہ اس وقت تک آرام و سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ آخری بھارتی فوجی کے ناپاک قدم اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکال نہیں پھینک دیتے۔ کشمیری آج تک اپنے جائز اور تسلیم شدہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور ان 22شہداء کی جلائی ہوئی شمع آزادی ابھی تک فروزاں ہے اور آج بھی پاکستانی پرچموں میں لپٹے کشمیری شہداء کے تابوت ان کی منزل “الحاق پاکستان اور تکمیل پاکستان” کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ وقت جلد آنے والے جب یہاں پھر سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوں گی اور پوری ریاست آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بن جائے گی۔ انشاء اللہ!!!

مایوس نہ ہوں تیرے گلستاں کے نظارے
وہ آئے تیرے چرخ کے ٹوٹے ہوئے تارے
وہ تیرے پجاری تیرے وارث تیرے پیارے ۔۔
ہاتھوں میں لیے وقت کی چلتی ہوئی شمشیر
اے وادی کشمیر! اے وادی کشمیر!

شہباز شریف Previous post وزیراعظم شہباز شریف کا حکومتی نظام میں اصلاحات کے نفاذ کی اہمیت پر زور
ترکمانستان Next post ترکمانستان کے اعلیٰ و ثانوی پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں 2025 کے داخلوں کا منصوبہ منظور