
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام “ادب اور عورت” مکالمے کا انعقاد
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ایک مکالمہ بعنوان ” ادب اور عورت” کا انعقاد کیا گیا۔آکادمی کے ناظم/ مدیر اعلی محمد عاصم بٹ نے تقریب میں موجود شاعروں اور ادیبوں کو خؤش آمدید کہا۔ نامور اہل قلم ،صدرنشیں اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف ،محترمہ فریدہ حفیظ، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر شیر علی، جناب منیر فیاض، ڈاکٹر شاذیہ اکبر،ڈاکٹر بی بی امینہ،محترمہ فاطمہ عثمان، محترمہ عمارہ عامر خٹک، جناب وسیم اور جناب اقبال حسین افکار ودیگر نے،ادب میں خواتین کا کردار،ادب میں عورت بطور موضوع، ادبی تنقید میں عورت کی موجودگی اور ادبی تنقید کا عورت کے حوالے سے رویہ جیسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔صدر نشیں اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں عورت کو اس کے جائز مقام و مرتبے کی ضرورت ہے لیکن ہمیں عورت کی برابری کے معاملے کو ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے مرد اور عورت کے حقوق برابر ضرور ہیں مگر یکساں نہیں۔ مر دو زن کی برابری کا مطلب مردوزن کے کردار کی یکسانی نہیں ہونا چاہیے۔ اور عورت کو معاشرے میں عزت یا مقام حاصل کرنے کے لیے مرد کا کردار ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ عورت کی عزت و اہمیت اس کے عورت ہونے کی وجہ سے ہونی چاہیے اور اسے اس کا جائز مقام دیا جانا چاہیے۔ خواہ وہ کوئی گھریلو عورت ہو یا دفتر میں کام کرنے والی عورت، دونوں ہی صورتوں میں معاشرے کی ترقی میں اس کا کردار نہایت اہم ہے اور اسے مرد کے کردار کے مماثل نہیں بلکہ اس کے برابر بنانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ گھریلو ذمہ داریوں اور فرائض کو بھی کام سمجھ کر ان کا معاوضہ عورت کو دیا جا سکتا ہے تاکہ ہر عورت معاشی طور پر مضبوط اور خود مختار ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملازمت پیشہ ماؤں کی سہولیات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت ، خواہ گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ، اس کا باشعور ہونا ضروری ہے۔ اس کی تعلیم و تربیت صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے لیے اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی نے کہا کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سب سے پہلے الطاف حسین حالی نے اپنی نظموں کے ذریعے آواز بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بہت حد تک خواتین کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں یہ تاثر ہے کہ خواتین ہی خواتین کے راستے میں روڑے اٹکا تی ہیں۔ تاہم خواتین ذہنی صلاحیتوں کے حوالے سے مردوں سے کم نہیں ہیں۔ ڈاکٹر شیر علی نے کہا کہ تخلیقی اور تنقیدی ادب میں خواتین کا نمایاں کردار رہا ہے انھوں نے اس حوالے سے ممتاز شیریں کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت معاشرے میں انفرادی شناخت چاہتی ہے اس لیے وہ مردوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔منیر فیاض نے کہا کہ عورت ہی فطرت کی بھر پور عکاسی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا ماں جیسی شخصیت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عورت سماج میں ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانا چاہتی ہے اور کسی بھی معاشرے کی ترقی کو وہاں عورت کو حاصل مقام و مرتبہ سے ماپا جا سکتا ہے۔ محترمہ فریدہ حفیظ نے کہا کہ مرد و عورت میں برابری کی دوڑ سے قطع نظر انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ مرد اور عورت دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ڈاکٹر شازیہ اکبر نے کہا کہ مدری زمانے میں ماں مادر معبودہ سمجھیں جاتی تھی۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو مرد اور زن کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انسانیت کی نظر سے دیکھنا چاہیے ۔ڈاکٹر امینہ بی بی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادبی تنقید میں خواتین کے کام کو کم دکھایا گیا یے اور ان کی کوئی خاص پزیرائی نہیں ہوتی ہے۔ خواتین کی ادبی خدمات کو بھی پزیرائی ملنی چاہیے۔محترمہ عمارہ عامر خٹک نے کہا کہ ابھی تک عورت کا کہا اور لکھا ہوا ادب پوری طرح سامنے نہیں آیا۔ اب بھی عورتیں اپنی تخلیقات کو چھپاتی ہیں۔ جب تک یہ ادب پوری طرح سامنے نہیں آتا، اس وقت تک خواتین اور مردوں کے ادب کا تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ خواتین کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے اب وہ معاشرے کو سمجھنے اور پاؤں جمانے کی پوزیشن میں آگئی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ وہ برابری کی سطح پر آجائیں گی۔ گفتگو میں ادب عالیہ اور پاپولر لٹریچر پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی مقررین کا کہنا تھا کی پاپولر ادب وقتی اور سطحی ہوتا ہے۔جب کے سنجیدہ ادب کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں اور دیر پا ہوتا یے۔ محترمہ ثمینہ نے اپنی پنجابی نظم پیش کی۔محمد عاصم بٹ نے کہا کہ محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ایک متوازن نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ ہمیں عورت کے مماثل اور مساوی حقوق کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے انہوں نے کہا کہ ارتقا کا مطلب یہی ہے کہ مختلف متضاد رویوں کے درمیان توازن پیدا کیا جائے اور یہی وہ نقطہ نظر ہے کہ عورت اپنا مقام حاصل کرے لیکن جو اعلی معاشرتی سماجی اقدار ہین، ان سے بھی انحراف نہ ہو۔اس نشست میں شرکت کرنے والوں میں، صدر نشیں اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف،محترمہ فریدہ حفیظ،ڈاکٹر طارق ہاشمی،ڈاکٹر شیر علی، محمد عاصم بٹ ،ڈاکٹر شاذیہ اکبر،ڈاکٹر امینہ بی بی، محترمہ عمارہ عامر خٹک، جناب منیر فیاض،محترمہ فاطمہ عثمان، جناب اقبال حسین افکار،محترمہ سارا خان،جناب محمد وسیم فقیر،محترمہ ثمینہ،محترمہ علشبہ نواز،محترمہ فاطمہ محمود،محترمہ نازیہ عالم،محترمہ سمیعہ محمود ودیگر شامل تھے۔