لاس اینجلس

لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ بے قابو: نئے علاقے متاثر، ہلاکتیں 11 تک پہنچ گئیں

لاس اینجلس، یورپ ٹوڈے: لاس اینجلس میں جاری جنگلاتی آگ ہفتے کے روز نئے علاقوں تک پھیل گئی، جس کے نتیجے میں مزید انخلا کے احکامات جاری کیے گئے اور امیدیں معدوم ہوگئیں کہ یہ تباہی جلد قابو میں آجائے گی۔

منگل سے شروع ہونے والی ان آگوں میں اب تک کم از کم 11 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ ہزاروں مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس تباہی کو “جنگ کے میدان” سے تشبیہ دی ہے۔

پالیسڈز کے علاقے میں آگ کے پھیلاؤ نے مشہور گیٹی سینٹر آرٹ میوزیم کے قریبی علاقوں میں انخلا کے احکامات کو جنم دیا۔ تیز ہواؤں کی پیشگوئی کے باعث مزید آگ بھڑکنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

عوامی غم و غصہ اور حکومتی تحقیقات

لاس اینجلس کے رہائشی اس تباہی کے اسباب اور حکومتی تیاریوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ نیکول پیری، جن کا گھر جل کر خاک ہوگیا، نے حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا، “ہمیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔”

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے ایک آزاد تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ابتدائی آگ بجھانے کی کارروائیوں میں پانی کی کمی کو “انتہائی تشویشناک” قرار دیا۔

لوٹ مار اور سیکیورٹی انتظامات

لوٹ مار کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث متاثرہ علاقوں میں غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ اب تک دو درجن افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں، اور نیشنل گارڈ کو امن و امان بحال رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

آگ کے اثرات اور ماحولیاتی تبدیلی

CAL FIRE کے مطابق، پانچ مختلف آگوں نے 150 مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ جلا دیا ہے اور تقریباً 12,000 ڈھانچے تباہ کر دیے ہیں۔ آگ سے متاثرہ مشہور شخصیات میں میل گبسن، پیرس ہلٹن، اور انتھونی ہاپکنز شامل ہیں، جبکہ شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل نے بھی متاثرین کی دلجوئی کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلاتی آگ ایک قدرتی عمل ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں نے ان کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ کیا ہے۔

حکومتی اقدامات اور سیاسی تناؤ

صدر بائیڈن نے غلط معلومات پھیلانے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں انسانی المیے کو سیاست کا شکار نہیں بنانا چاہیے۔” گورنر نیوسم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔

لاس اینجلس کی فائر چیف کرسٹین کراؤلی نے فنڈز کی کمی کو محکمہ فائر سروسز کی کمزوری کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

صورتحال اب بھی خطرناک

ہفتے کی صبح تک پالیسڈز کی آگ صرف آٹھ فیصد قابو میں تھی اور 21,600 ایکڑ تک پھیل چکی تھی۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ ہواؤں کی شدت میں اضافے سے خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

برطانیہ Previous post چین اور برطانیہ کے درمیان اقتصادی اور مالیاتی ڈائیلاگ کا 11واں اجلاس: تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا عہد
چین Next post پاک چین تعلقات مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ، سی پیک 2.0 منصوبوں پر خصوصی توجہ