لاس اینجلس سے غزہ تک: غم کے آفاقی درد
انسانی جذبات کے وسیع دائرے میں، غم اور دکھ وہ تجربات ہیں جو عالمی حیثیت رکھتے ہیں۔ چاہے نقصان قدرتی آفت کی وجہ سے ہو یا انسان کے پیدا کردہ حادثے سے، درد کا احساس یکساں ہوتا ہے۔ حالیہ واقعات جیسے لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ اور غزہ میں ہونے والی تباہی نے ان جذبات کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ دونوں صورتوں میں انسانی تکلیف بہت زیادہ ہے، لیکن ان کے اسباب بالکل مختلف ہیں۔ لاس اینجلس کی آگ قدرتی آفت ہے، جبکہ غزہ کی تباہی انسانی عمل کی وجہ سے ہے۔ اس فرق کے باوجود، متاثرہ افراد کا درد اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ انسانی زندگی کس قدر نازک اور آپس میں جڑی ہوئی ہے۔
قدرتی آفات، جیسے لاس اینجلس کی آگ، اکثر فطرت کے عمل کے طور پر دیکھی جاتی ہیں جو انسان کے قابو سے باہر ہیں۔ یہ زندگیاں تباہ کرتی ہیں، خاندانوں کو بے گھر کر دیتی ہیں، اور کمیونٹیز کو نیست و نابود کر دیتی ہیں۔ اس کے فوری ردعمل میں عام طور پر اجتماعی ہمدردی اور یکجہتی شامل ہوتی ہے۔ لوگ مختلف پس منظر سے اکٹھے ہو کر متاثرین کی مدد اور تعاون کرتے ہیں۔ ان لمحات میں انسانیت اپنی بہترین شکل میں ظاہر ہوتی ہے، نسل، مذہب، اور جغرافیہ کی رکاوٹوں کو عبور کرتی ہوئی۔ تاہم، دکھ گہرا ہوتا ہے۔ زندگیوں، گھروں، اور یادوں کے نقصان کو مالی لحاظ سے نہیں تولا جا سکتا۔ جب کسی کا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے، تو یہ صرف مادی نقصان نہیں ہوتا جو دل کو زخمی کرتا ہے، بلکہ دل میں ایک ناقابل تلافی خلا چھوڑ جاتا ہے۔
اس کے برعکس، غزہ میں جاری مصائب انسانی ہاتھوں کا پیدا کردہ المیہ ہیں۔ یہ غیر متوقع قدرتی قوتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ سیاسی تنازعات اور طاقت کی کشمکش سے پیدا ہونے والے ارادوں کا مظہر ہیں۔ غزہ میں تباہی کا پیمانہ بہت بڑا ہے اور انسانی نقصان خوفناک ہے۔ پورے خاندان ختم ہو جاتے ہیں، گھر ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں، اور مستقبل تاریک ہو جاتے ہیں۔ اس دکھ کو یہ احساس مزید بڑھا دیتا ہے کہ ایسی تباہیاں روکی جا سکتی تھیں۔ یہ انسان کی بے رحمی اور زندگی کی بے قدری کی عکاسی کرتی ہیں جب انسان دشمنی اور لالچ کے پردے میں اندھا ہو جاتا ہے۔
دونوں صورتیں ہمیں انسانی تکلیف اور اس پر ہمارے ردعمل پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ نقصان کے لمحات میں، مشترکہ انسانیت کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید ہمیں اس باہمی تعلق کی یاد دہانی کراتا ہے، جیسا کہ سورۃ الحجرات (49:13) میں ارشاد ہے
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔
یہ آیت انسانی نسل کی وحدت کو اجاگر کرتی ہے اور باہمی سمجھ بوجھ اور ہمدردی کی دعوت دیتی ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے بھی انسانی زندگی کی حرمت اور ہمدردی کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک مشہور حدیث میں فرمایا
“مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔”
یہ گہری مثال مشکل وقتوں میں اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، چاہے مصیبت کی وجہ کچھ بھی ہو۔
مسیحی تعلیمات بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔ بائبل میں رومیوں (12:15) میں کہا گیا ہے
“خوش ہونے والوں کے ساتھ خوشی مناؤ، اور رونے والوں کے ساتھ روؤ۔”
یہ ہمدردی کی دعوت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انسانی دکھ کا تجربہ مشترکہ ہے اور ایک دوسرے کا سہارا دینا ضروری ہے۔
یہودی تعلیمات میں، تلمود میں کہا گیا ہے
“جس نے ایک جان کو بچایا، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا۔”
یہ مضبوط بیان ہر انسانی زندگی کی حرمت اور ایک دوسرے کی حفاظت اور مدد کرنے کی اجتماعی ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے۔
ہندو فلسفہ بھی تمام مخلوقات کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتا ہے۔ “وسودھیو کٹمبکم” کا تصور، جس کا مطلب ہے “دنیا ایک خاندان ہے”، یہ خیال پیش کرتا ہے کہ انسانیت ایک مشترکہ وجود میں بندھی ہوئی ہے۔ بھگوت گیتا میں ہمدردی، عدم تشدد، اور دوسروں کی مدد کے لیے اپنے فرض کی انجام دہی کی اہمیت کی تعلیم دی گئی ہے، خاص طور پر مصیبت کے وقت۔ اسی طرح، بدھ مت ہمدردی پیدا کرنے اور دکھ کو کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ بدھ مت کی “کرونا” (ہمدردی) کی تعلیم تمام جانداروں کے ساتھ مہربانی اور ہمدردی کے ساتھ برتاؤ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔
یہ دیکھنا افسوسناک ہے کہ آج کی دنیا میں ہمدردی بعض اوقات منتخب ہو جاتی ہے۔ قدرتی آفات عموماً عالمی سطح پر ہمدردی کو جنم دیتی ہیں، جبکہ انسانوں کے پیدا کردہ سانحات سیاسی تعصبات کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غزہ کے معصوم لوگوں کے مصائب بعض اوقات نظرانداز کر دیے جاتے ہیں یا جغرافیائی بیانیے کے تحت جائز قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ منتخب اخلاقیات انسانی زندگی کی قدر کے عالمی اصول کو کمزور کرتی ہیں۔
مضمون کے عنوان، “دشمن کے مرنے پر خوش نہ ہو، دوست بھی مریں گے”، ہمیں دوسروں کو غیر انسانی سمجھنے کے خطرات کی یاد دلاتا ہے۔ دشمن کی موت کا جشن نفرت اور انتقام کے سلسلے کو بڑھا سکتا ہے، جو مصائب کو جاری رکھتا ہے۔ قرآن کریم سورۃ الاسراء (17:33) میں ہمیں خبردار کرتا ہے
اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے، مگر وہ زیادتی نہ کرے قتل کرنے میں۔ بے شک وہ مدد دیا گیا ہے۔
یہ آیت زندگی کی حرمت اور انصاف کی اہمیت پر زور دیتی ہے اور تنازعے کے دوران بھی اعتدال کی تعلیم دیتی ہے۔
لاس اینجلس کی آگ یا غزہ کی تباہی جیسے واقعات ہمیں رک کر اپنے مشترکہ ضعف پر غور کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ واقعات یاد دلاتے ہیں کہ تکلیف کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور انسانی نقصان، چاہے اس کا ماخذ کچھ بھی ہو، ہماری اجتماعی روح کے لیے زخم کا باعث ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس حقیقت کو دل میں اتار لیں کہ ہم دوسروں کے درد کو سمجھ سکیں اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی کوشش کریں جو زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہو۔
قرآن کریم اور حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات ہمیں ہمدردی اور انصاف کی رہنمائی کرتی ہیں۔ یہ ہمیں معمولی اختلافات سے اوپر اٹھنے اور ہر زندگی کو مقدس سمجھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ قدرتی آفات کے دوران ہمیں ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے، جبکہ انسانوں کے پیدا کردہ سانحات میں، ہمیں بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور امن و مصالحت کی وکالت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کسی کا گھر، چاہے وہ آگ سے تباہ ہو یا بم سے، زندگی کی غیر یقینی صورتحال کی ایک واضح یاد دہانی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کی قدر کریں اور ان لوگوں کی مدد کریں جنہوں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ انسانیت کا اصل امتحان یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے جاننے والوں اور پیاروں کے دکھ پر کیسے ردعمل ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اجنبیوں اور حتیٰ کہ مخالفین کے درد پر کیسے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
آج کی دنیا کو مزید ہمدردی، سمجھ بوجھ، اور اجتماعی عمل کی ضرورت ہے۔ بحیثیت افراد اور عالمی برادری کے، ہمیں منتخب ہمدردی کے تصور کو رد کرنا چاہیے اور ہر زندگی کو برابر اہمیت دینے کے عالمی اصول کو اپنانا چاہیے۔ تب ہی ہم ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی امید کر سکتے ہیں جہاں دکھ کا جواب سکون سے دیا جائے اور مصیبتوں کو یکجہتی سے ختم کیا جا سکے۔