
محبت، عزت اور معاشرتی بصیرت
محبت کا احساس نہایت خوبصورت ہے، اور یہ خاص طور پر تب پیدا ہوتا ہے جب دل کسی کی طرف مائل ہو—یعنی وہ شخص ہمارے لیے پسندیدہ ہو۔ قرآن میں اسی اصول کی نشاندہی ہے کہ جب دل کسی کی طرف مائل ہو تو اس جذبے کو نکاح کے ذریعے جائز اور محفوظ راستے میں ڈھالنا چاہیے۔اللہ پاک قرآن پاک میں سورة النساء کی آیت تین میں فرماتے ہیں:
“فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا (3)” القرآن
ترجمہ:” جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہ کر سکو، تو ایک ہی سے نکاح کرو یا جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی۔ یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے۔”
یہ آیت اسی اصول کی نشاندہی کرتی ہے کہ دل کی تمنا جائز راستے میں پوری ہونی چاہیے، اور انصاف کی شرط کے بغیر ایک سے زیادہ نکاح ممکن نہیں۔محبت کو آگے بڑھانے کے لیے ہم آہنگی اور رضا مندی ضروری شرط ہیں۔ کسی بھی رشتے کے استحکام کے لیے یہ بنیادی ستون ہیں۔
میری التماس ہے کہ وہ مرد جو دوسری عورت کو نکاح کے ذریعے عزت نہیں دے سکتے، اپنی محبت صرف اپنی بیوی تک محدود رکھیں۔ اور خواتین سے گزارش ہے کہ چند لمحوں کی تسکین کے لیے اپنی عزت اور غیرت کا سودا نامردوں اور لونڈی کے رویے والے مردوں کے ساتھ نہ کریں۔ محبت میں عزت اور احترام اولین شرط ہیں۔
ہماری معاشرتی خامی یہ بھی ہے کہ جو کچھ آس پاس ہو رہا ہے، ہم اس کی تقلید کرتے ہیں اور جلد باز فیصلے کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں قانون اور معاشرہ گرل فرینڈ یا محبت کے رشتوں میں تحفظ فراہم کرتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ ممکن نہیں۔ نتیجتاً عورت جو نام ہی عزت، وقار اور مرتبے کا ہے، چند حقیر خواہشات کی تکمیل کے عوض محبت کے نام پرخود کو بیچ دیتی ہے اورگرل فرینڈ (لونڈی) ہونے پہ اتراتی ہے۔ یہ حقیقت انتہائی افسوسناک ہے۔(لفظ “لونڈی” قاری کو جھٹکا دیتا ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب وہ رک کر سوچتا ہے، اپنی سوچ اور رویے پر غور کرتا ہے)۔ اس لفظ کے استعمال کا مقصد دل آزاری کرنا نہیں محض اصلاح ہے کہ شاید یہ سخت لفظ سوچ کے دریچے واہ کر دے اور قاری کی اصلاح کے آغاز کا باعث بنے۔ یہی وہ لمحہ ہے جس کے لیے ادب کا مقصد حقیقت بیان کرنا اور اخلاقی شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔
محبت اور ہوس کے مابین فرق کو سمجھیں۔محنت کریں اور عزت سے جینا سیکھیں ۔محبت میں عزت اور احترام کے بغیر زندگی کا استحکام ممکن نہیں، اور قرآن پاک کی رہنمائی ہمیں اسی راہ پر چلنے کی دعوت دیتی ہے۔
محبت اور عزت
یہ احساس۔۔۔
خوبصورت نہیں، بہہت خوبصورت ہے،
کہ
ہم کسی کی نظر کے حصار میں ہیں
یہ لمحہ، یہ جذبہ
آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے،
اور ہم آہنگی، رضا مندی
کے بغیر کوئی رشتہ قائم نہیں کر سکتے
انسان کی زندگی میں کچھ بھی ایسا نہیں
جو ہمیں قرآن پاک کی رہنمائی کے بغیر سمجھ آئے،
بس ہم جلد باز ہیں، وقتی فائدہ دیکھتے ہیں،
غور و فکر نہیں کرتے۔
محبوب کی عزت تو دور کی بات،
ہم اپنی عزت بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں،
جبکہ محبت میں پہلی شرط ہی عزت ہے
کہ ہم کسی کو اس قابل سمجھیں
کہ اس کا ہاتھ تھام کر ہم پوری زندگی جینا چاہتے ہیں
اور پھر سوال یہی ہے،
اللہ پاک نے جو راستہ محبت کے لیے تجویز فرمایا
ہم کیوں نہیں اپناتے؟
میں یہ نکتہ اٹھاتی ہوں،
جب بھی کسی اہل علم یا ادب سے بات ہوتی ہے،
لیکن ان کے پاس جواب نہیں ہوتا
میری درخواست مردوں سے ہے:
جو کسی عورت کو نکاح کے ذریعے عزت نہیں دے سکتے،
اپنی محبت صرف اپنی بیوی تک محدود رکھیں
میری خواتین سے گزارش ہے:
چند لمحوں کی تسکین کے لیے
اپنی عزت اور غیرت کا سودا
نامردوں کے ساتھ نہ کریں
ہماری کمزوری یہ بھی ہے
کہ آس پڑوس میں جو ہو رہا ہے،
ہم اس کی تقلید کرتے ہیں،
غور و فکر کے بغیر
دوسرے ممالک کا معاشرہ، قانون، اور حکومت
گرل فرینڈ یا لونڈی کے لیے تحفظ فراہم کرتے ہیں،
جبکہ ہمارے ملک میں یہ ممکن نہیں
اور یہ کڑا سچ ہے:
عورت جو نام ہی عزت، وقار اور مرتبے کاہے،
وہ چند حقیر خواہشات کی تکمیل کے لیے
اپنی عزت نیلام کردیتی ہے۔۔۔!