وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا آئی ایم ایف سے مذاکرات پر اظہار اطمینان

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا آئی ایم ایف سے مذاکرات پر اظہار اطمینان

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کا آغاز مثبت انداز میں ہوا ہے اور حکومت ایک بہتر نتیجے کے لیے پُر امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالتوں میں زیر التوا اربوں روپے کے ٹیکسز کی وصولی ممکن ہو جاتی ہے تو رواں مالی سال کے دوران ٹیکس خسارہ ایک ہزار ارب روپے سے کم رہے گا۔

حکومت نے عدالتوں میں پھنسے ہوئے اربوں روپے کے ٹیکسز کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے پیر کے روز کراچی میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور پاکستان بزنس کونسل کے ساتھ بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم، ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران فروری تک ٹیکس خسارہ 450 ارب روپے رہا ہے، جبکہ جون تک اس میں مزید اضافے کا امکان نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسی اقدامات پر ناقص عملدرآمد کے باعث مزید 540 ارب روپے کے خسارے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومت تاجر برادری اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی مضبوط لابی پر مؤثر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ کمزور اقتصادی ترقی، تاجروں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکسز کے عدم نفاذ اور غیر حقیقی اندازوں کی وجہ سے مجموعی طور پر 990 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ اس خسارے کو کم کرنے کے لیے عدالتوں میں زیر التوا ٹیکس معاملات کی وصولی کو ممکن بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے وفد نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے بھی ملاقات کی، جس میں حکام نے بتایا کہ عدالتوں میں 4 ہزار ارب روپے کے ٹیکس معاملات زیر التوا ہیں، جن میں سے 300 ارب روپے کی وصولی کا امکان ہے، جبکہ مزید 100 ارب روپے سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس میں کمی کے ذریعے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے صدر نے شیخ محمد بن راشد کو امارات انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ کے پہلے وصول کنندہ کے طور پر اعزاز سے نوازا Previous post متحدہ عرب امارات کے صدر نے شیخ محمد بن راشد کو امارات انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ کے پہلے وصول کنندہ کے طور پر اعزاز سے نوازا
چین کا یکطرفہ پالیسیوں اور تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت پر زور Next post چین کا یکطرفہ پالیسیوں اور تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت پر زور