
میکرون کی اقوام متحدہ سمندری کانفرنس میں کثیرالطرفہ اقدامات کی اپیل
نِیس، یورپ ٹوڈے: فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کے روز فرانس کے شہر نِیس میں اقوامِ متحدہ کی تیسری سمندری کانفرنس (UNOC 3) کا افتتاح کرتے ہوئے دنیا بھر سے کثیرالطرفہ اقدامات کے لیے ایک فوری اور مضبوط اپیل کی تاکہ سمندروں کو لاحق خطرات سے بچایا جا سکے۔
صدر میکرون نے کہا، “پہلا جواب کثیرالجہتی میں ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “گہرے سمندر برائے فروخت نہیں، نہ ہی گرین لینڈ، اور نہ ہی انٹارکٹیکا۔” ان کے یہ الفاظ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ بیانات کی طرف ایک غیر مستقیم تنقید سمجھے گئے، جو اُن کے منصب سنبھالنے کے بعد سے جاری ہیں۔
فرانسیسی صدر نے مزید کہا، “جب زمین گرم ہو رہی ہے، تو سمندر اُبل رہے ہیں۔” انہوں نے دنیا بھر کے سمندروں کے تحفظ کے لیے سائنس اور تحقیق میں “کھلی شراکت داری” کی ضرورت پر زور دیا۔
“موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کوئی رائے کا معاملہ نہیں، بلکہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقائق ہیں،” انہوں نے واضح کیا۔
ہائی سیریز معاہدہ: ایک اہم سنگ میل
صدر میکرون نے تصدیق کی کہ ہائی سیریز معاہدہ جلد ہی مطلوبہ تعداد میں ممالک کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے باقاعدہ آغاز سے چند گھنٹے قبل ہی 50 ممالک نے اس معاہدے کی توثیق پیش کی ہے، جبکہ مزید 15 ممالک نے باضابطہ طور پر اس میں شامل ہونے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے کہا، “سیاسی اتفاقِ رائے حاصل ہو چکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ نافذ کیا جائے گا۔ یہ معاملہ اب طے ہو چکا ہے۔” تاہم انہوں نے اس کے نفاذ کی حتمی تاریخ واضح نہیں کی۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ 2023 میں دستخط ہوا تھا اور یہ 60 ویں توثیق کے 120 دن بعد نافذ العمل ہوگا۔ فرانس کی خواہش تھی کہ نِیس کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی 60 توثیقات مکمل کر لی جائیں۔
عالمی رہنماؤں کی شرکت
اس کانفرنس میں تقریباً 60 عالمی رہنما شریک ہو رہے ہیں، جن میں برازیل کے صدر لوئز اِناسیو لولا دا سلوا اور ارجنٹینا کے صدر جویئر میلی بھی شامل ہیں۔
گہرے سمندر میں کان کنی پر پابندی کی اپیل
صدر میکرون نے گہرے سمندر میں معدنیات کی تلاش پر عالمی سطح پر پابندی (Moratorium) کو ایک “عالمی ضرورت” قرار دیا۔
انہوں نے کہا، “میری رائے میں گہرے سمندر میں استحصالی معاشی سرگرمیوں کا آغاز پاگل پن ہے، جو حیاتیاتی تنوع کو تباہ کر دے گا۔ اس پر پابندی ایک بین الاقوامی ضرورت ہے۔”
امریکی صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی پانیوں میں گہرے سمندری علاقوں کی تیزی سے تلاش کے احکامات جاری کیے ہیں، اور اس ابھرتے ہوئے شعبے کو ضابطے میں لانے کے عالمی اقدامات کو نظر انداز کیا ہے۔
بین الاقوامی سی بیڈ اتھارٹی (ISA)، جو قومی حدود سے باہر سمندری فرش پر دائرہ اختیار رکھتی ہے، جولائی میں ایک عالمی مائننگ کوڈ پر غور کے لیے اجلاس منعقد کرے گی، تاکہ گہرے سمندر میں کان کنی کے قواعد و ضوابط وضع کیے جا سکیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی رہنماؤں کا انتباہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا، “ہم گہرے سمندر کو ‘وائلڈ ویسٹ’ میں تبدیل نہیں ہونے دے سکتے،” کیونکہ دنیا اس شعبے کے لیے ضوابط طے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
برازیل کے صدر لولا نے یکطرفہ اقدامات کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، “اب سمندروں پر یکطرفہ استحصال کی تلوار لٹک رہی ہے، جیسا کہ تجارتی نظام کے ساتھ ہوا، ویسا ہی سمندروں کے ساتھ نہیں ہونے دینا چاہیے۔” انہوں نے بین الاقوامی سی بیڈ اتھارٹی سے مؤثر کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔
پلاسٹک آلودگی اور تحفظ کی ناکافی کوششیں
اس کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں پلاسٹک آلودگی پر عالمی معاہدے پر بھی کشمکش جاری ہے، جبکہ امریکہ گہرے سمندر میں کان کنی کے ضوابط سے پہلو تہی کر رہا ہے۔
غیر منافع بخش ادارے Marine Conservation Institute کے مطابق، اس وقت صرف 2.7 فیصد سمندری علاقوں کو مؤثر طور پر نقصان دہ سرگرمیوں سے محفوظ کیا گیا ہے، جبکہ “30×30” عالمی عہد کے تحت 2030 تک زمین اور سمندر کا 30 فیصد حصہ محفوظ بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
فرانس، جنوبی کوریا اور یورپی یونین نے ہائی سیریز معاہدے کو بھرپور انداز میں آگے بڑھایا ہے، لیکن جی-20 کے بیشتر بڑے سمندری ممالک نے تاحال اس کی توثیق نہیں کی۔
ماحولیاتی تنظیموں کی تشویش
فرانس، جو اس کانفرنس کا شریک میزبان بھی ہے، کا دعویٰ ہے کہ وہ سمندری تحفظ کے لیے 30 فیصد ہدف حاصل کر چکا ہے۔ تاہم ماحولیاتی تنظیمیں اس دعوے کو چیلنج کرتی ہیں۔ ادارے Oceana کے مطابق، صرف 3 فیصد فرانسیسی سمندری حدود مکمل طور پر صنعتی ماہی گیری اور دیگر نقصان دہ سرگرمیوں سے محفوظ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سال 2024 میں 100 سے زائد نیچے جال ڈالنے والی کمرشل کشتیوں نے فرانس کے 6 سمندری پارکس میں 17,000 گھنٹے سے زائد ماہی گیری کی۔
یہ عالمی کانفرنس عالمی برادری کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ سمندری وسائل کے تحفظ کو زبانی وعدوں سے نکال کر عملی اقدامات کی راہ پر ڈالے۔