
تحریک پاکستان میں مادر ملت ؒکا بے مثال کردار
تحریک پاکستان میں جہاں بےشمار مرد حضرات نے اپنے ولولوں، جرأتوں اور جذبوں سے اس میں اپنا رنگ بھرا وہاں خواتین بھی کسی سے بھی پیچھے نہ رہیں اور ان کی قربانیاں کسی طورپر بھی مردحضرات سے کم نہیں کہ انہوں نے اپنی خانگی مصروفیات کے ساتھ ساتھ وطن کی آزادی کے لیے اپنی بھرپور توانائیاں صرف کیں اور ان کی قربانیوں کو بالکل بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک پاکستان میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں تھی وہاں ہر کسی نے اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق اپنی فرض و کردار ادا کیا۔
تحریک پاکستان کی بے مثال جدوجہد میں جب خواتین کے کردار کا تذکرہ ہو گا تو یقینا محترمہ فاطمہ جناح ؒکا نام سرفہرست ہو گا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں خواتین کی طرف سے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنے آپ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی خواتین کے لیے کردار و عمل کا عملی نمونہ بنا کر پیش کیا۔ انہوں تحریک پاکستان کی صبر آزما جدوجہد میں صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ غیر مسلم خواتین میں بھی آزادی کی تڑپ اور امنگ پیدا کرنے کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔
محترمہ فاطمہ جناحؒ31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کر کے کلکتہ سے دانتوں کے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر بمبئی میں اپنا دانتوں کا کلینک قائم کیا لیکن جب قائداعظم ؒ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں سنبھال لیں کیونکہ ان کے عظیم بھائی اس وقت انگریزوں سے اپنے وطن کی آزادی کی جدوجہد میں سرگرم عمل تھے۔ اس دوران انہوں نے قائد اعظمؒ کی ہرطرح سے مدد و اعانت کی اور انہیں گھریلو معاملات کے بارے میں کسی بھی قسم کی فکر میں مبتلا نہ ہونے دیا۔ چونکہ آپ کی والدہ کا انتقال اس وقت ہو ا جب آپ صرف دوسال کی تھیں اور آپ کے بھائی لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ قائداعظمؒ نے واپس آکر اپنی اس چھوٹی بہن کی پرورش کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور انہیں ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اسی طویل رفاقت کی وجہ سے ان کی شخصیت پر بھی قائداعظم کا عکس نمایاں ہوگیا اور انہیں کردار و عمل کے لحاظ سے قائد کی حقیقی تصویر تصور کیا جانے لگا۔
محترمہ فاطمہ جناحؒ ایک عہد ساز شخصیت تھیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی خواتین کی بیداری اور کردار سازی میں صر ف کی۔ انہوں نے خواتین کو ایک مرکز پر جمع کر کے ان میں ایک نئی سوچ اور ملک و قوم کے لیے مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کی امنگ اور وطن کی آزادی کے لیے ان میں اپنا جاندار کردار ادا کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں قائدؒ کے دوش بدوش انہوں نے بے مثال کردار ادا کیا اور خواتین میں بیداری پیدا کر کے انہیں متحرک و منظم کیا تاکہ وہ پرعزم ہو کر قیام پاکستان کی منزل کے حصول کے لیے آگے بڑھ سکیں۔ ان کے پاکستانی قوم پر بے شمار احسانات ہیں انہوں اپنی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے قوم کی صحیح سمت میں راہنمائی کی۔ جس طرح ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح قائداعظمؒ کی جدوجہد میں کامیابی کا راز بھی مادرملت کی حوصلہ افزائی اور ستائس ہی تھی۔
قائداعظمؒ اپنی اس بہن کی انتھک محنت اور ولولہ انگیزی کے معترف تھے اور ان کے اپنی عظیم بہن کے لیے یہ الفاظ ایک اعزاز ہیں کہ “فاطمہ میرے لیے حوصلے کا ذریعہ ہے ان دنوں جب مجھے برطانوی حکومت کی طرف سے گرفتاری کا خدشہ تھا تو فاطمہ نے مجھے حوصلہ اور ہمت دی”۔
محترمہ فاطمہ جناحؒ ایک زیرک اور مخلص راہنما تھیں وہ اپنے بھائی سے بہت محبت اور پیار کرتی تھیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھتی تھیں تاکہ وہ سکون و دلجمعی سے اپنی قوم کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ وہ قائد کی جانثار ساتھی اور رفیق کار تھیں اور قائدؒ کی تربیت ہی کی بدولت ان میں سیاسی شعور بھی پروان چڑھا۔ ان کی سیاسی تربیت کا آغاز اس وقت ہوا جب 1930 ء میں قائدؒ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو مادر ملتؒ بھی ان کے ساتھ تھیں، اس کے بعد جب حالات سے دلبر داشتہ ہوکر قائدؒ نے لندن میں ہی مستقل قیام کا ارادہ کرلیا تو اس دوران محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ہی ان کی ہردم ہمہ وقت دلجوئی اور حوصلہ افزائی کی جس سے وہ امید کا دامن تھامے رہے اور مایوسی سے دور رہے۔ قائد اعظمؒ ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں گھر واپس آتا تو میری بہن میرے لیے امید کی کرن اور مستقبل کی روشنی بن جاتیں اور فاطمہ کے حسن تدبر اور توجہ سے میری تمام پریشانیاں دور ہوجاتی تھیں۔
تحریک پاکستان کے دوران خواتین کی راہنمائی اور دیگر امور میں مصروفیت کے باوجود وہ کبھی اپنے بھائی کے آرام وآسائش سے کبھی غافل نہ رہیں۔ 23 مارچ 1940 ء کو قراردادپاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے پورے ہندوستان میں ہر جگہ ہر قریے کا دورہ کیا اور قائدؒ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور جلد ہی ان کی انتھک محنت اور کوشش رنگ لے آئی اور یوں وہ لمحہ جانفزاء آن پہنچا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا کردار ایک نئے روپ سے سامنے آتا ہے۔ ایک طرف وہ قائد اعظم ؒ کے بحثیت گورنرجنرل کے فرائض منصبی کے احسن طریقے سے انجام دہی کے لیے وہ ان کے دست راست کے طور پر ممد و معاون بنتی ہیں اور دوسری طرف وہ پاکستانی خواتین کو بھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ ان کے مسائل اور ان کے حل کے لیے بھی کمربستہ ہوتی ہیں۔
قائداعظم ؒ کی بیماری میں بھی وہ پوری تندہی سے ان کی تیمارداری اور خدمت کرتی رہیں اور ان کی صحت یابی کے لیے فکرمند رہیں۔ قائداعظم ؒکہا کرتے تھے کہ “فاطمہ میری دوست اور مشیر بھی ہیں”۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف اوراپنے بھائی کی طرف سے بھرپور خراج تحسین تھا۔ مادر ملت ؒکے اندر سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور دوراندیشی، حق گوئی اور بے باکی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ خود کہا کرتی تھیں کہ کوئی شخص مجھے خرید نہیں سکتا اور نہ ہی میں کسی کی چالوں میں آسکتی ہوں۔ میں نے قائداعظم ؒسے تربیت پائی ہے اور میر ا نصب العین ایک ہے۔
قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد وہ تقریباً بیس سال حیات رہیں اور وہ پاکستانی قوم کی امیدوں اور تمناؤں کا مرکز بنی رہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ قائد کے مشن اور پیغام کو آگے بڑھانے میں صرف کیا۔ وہ ہرلمحہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے کمربستہ رہیں۔ قائداعظمؒ کی پہلی برسی پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اب اس کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ دنیا آپ کی حرکات و سکنات بغور دیکھ رہی ہے۔ آ پ نے ثابت کرنا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے اہل ہیں۔ غفلت آزادی کی دشمن ہے اور آزادی کی سب بڑی قیمت دائمی طور پر بیدار اور چوکس رہنا ہے۔ مادر ملت 9 جولائی 1967 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ان کے ارشادات و افکار آج بھی قوم کے لیے راہنمائی اور حوصلہ افزائی کے لیے کافی ہیں اور ان کے احکامات و تصورات پر عمل پیرا ہو کر ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی کی منزل طے کی جا سکتی ہے اور پاکستانی قوم ان سے راہنمائی لے کر اوج کمال تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
؎ خدا رحمت کند پاک طینت مادرملت را