
امریکی فضائی حملوں کے بعد تہران میں ہزاروں افراد کا مظاہرہ، صدر پہزشکیان کی غیر اعلانیہ شرکت
تہران، یورپ ٹوڈے: ایران کے دارالحکومت تہران میں اتوار کی شام ہزاروں ایرانی شہریوں نے انقلاب اسکوائر میں جمع ہو کر امریکی فضائی حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ یہ مظاہرہ اس وقت شروع ہوا جب چند گھنٹے قبل امریکی بی-2 بمبار طیاروں نے نطنز، اصفہان اور فردو میں ایران کی اہم جوہری تنصیبات پر مربوط حملے کیے۔
مظاہرین نے “امریکہ مردہ باد!” اور “امریکہ کو خطے سے نکالو!” جیسے نعرے لگا کر اپنی شدید برہمی کا اظہار کیا اور ان حملوں کو کھلی امریکی جارحیت قرار دیا۔ متعدد افراد نے ایرانی حکومت سے فوری اور سخت جواب دینے کا مطالبہ کیا۔
ایک مظاہر نے قومی پرچم لہراتے ہوئے کہا: “وہ ہم پر بم گراتے ہیں اور پھر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں جواب دینا ہوگا، انہیں نکالو۔”
امریکی حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں فردو کی زیرِ زمین اور پہاڑوں میں محفوظ تنصیب بھی شامل ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق، اگرچہ اتوار کے حملوں میں جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم دس روز قبل اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بمباری میں اب تک 400 سے زائد افراد جاں بحق اور 2000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔
مظاہرین نے خطے میں امریکی فوجی موجودگی پر بھی شدید تنقید کی۔ ایک خاتون نے کہا: “یہاں مغربی ایشیا میں ان کے 19 فوجی اڈے ہیں۔ چالیس ہزار فوجی اور ملازمین ہماری سرحدوں پر بیٹھے ہیں۔ اب ان کا یہاں کوئی کام نہیں۔”
اس احتجاج کی خاص بات صدر مسعود پہزشکیان کی غیر اعلانیہ شرکت تھی، جو بغیر کسی بھاری سیکیورٹی کے ہجوم میں شامل ہوئے اور عوام کے جذبات کو براہ راست سنا۔ ان کی موجودگی نے مظاہرین کو حوصلہ دیا، اور مختصر خطاب میں انہوں نے صبر، استقامت اور قومی خودداری کی اپیل کی۔
ایک معمر شخص نے صدر کی موجودگی کو سراہتے ہوئے کہا: “وہ بم گراتے ہیں اور بات امن کی کرتے ہیں۔ صدر کا یہاں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہماری بات سمجھتے ہیں۔ امریکہ نے وعدہ توڑا ہے، اب انہیں جانا ہوگا۔”
صدر پہزشکیان نے اپنے خطاب میں وعدہ کیا کہ ایران جلد جامع ردِعمل دے گا۔ اگرچہ سرکاری طور پر ایران کی جانب سے امریکہ کی جارحیت پر ردِعمل آنا باقی ہے، لیکن ایران نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں پر حملے تیز کر دیے ہیں، جو خطے میں 13 جون کو جنگ کے آغاز کے بعد سے شدید کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ایرانی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اگر امریکہ کی جانب سے براہ راست حملے کیے گئے تو ایران کسی بھی “سرخ لکیر” کو خاطر میں نہیں لائے گا، جس پر خطے اور دنیا بھر میں ایک وسیع تر جنگ کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، اور عالمی مبصرین ایران کے آئندہ اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں بگڑتے ہوئے سلامتی کے حالات کی غمازی کر رہے ہیں۔