تبصرہ :" صحرا نورد کا نیا خط" از میرزا ادیب

تبصرہ :” صحرا نورد کا نیا خط” از میرزا ادیب

مرزا ادیب 4 اپریل 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اصل نام دلاور حسین علی ہے۔ والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ میرزا ادیب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنالیا۔ اور پھر اردو ادب کی خدمت پر کمربستہ ہو گئے۔ اور اسی کو مقصد حیات سمجھ لیا۔ ان کا خاص میدان افسانہ نگاری اور ڈراما نگاری ہے۔ مرزا ادیب   اردو اور پنجابی ادب کے ممتاز افسانہ نگار، خاکہ نویس، ڈرامہ نگار اور مضمون نگار تھے۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ انہوں نے اردو ادب میں سادہ، رواں اور حقیقت پسند نثر کو فروغ دیا۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی نے ان کے اسلوب میں مکالماتی روانی پیدا کی۔ مرزا ادیب کے افسانے اور خاکے انسانی زندگی کے روزمرہ مسائل، محنت کش طبقے، عورت کی عزتِ نفس اور معاشرتی سچائیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔

بزرگ افسانہ نگار محترم میرزا ادیب نے اپنی 82 سالہ زندگی میں اردو کو بہت کچھ دیا ہے۔ نثری ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس میں ان کی قد آور شخصیت کی چھاپ نہ ہو، افسانہ، ڈراما، سفرنامہ، تنقید، تراجم، تالیفات بچوں کے لیے کہانیاں، غرض ہر صنف میں میرزا ادیب کی گراں قدر تخلیقات اردو کی توقیر میں اضافہ کا باعث ہیں۔ میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط، صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، حسرت تعمیر، متاع دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، فصیل شب، شیشے کے دیوار، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض، گلی گلی کہانیاں اور ان کی خودنوشت سوانح “مٹی کا دیا” شامل ہیں۔ انھوں نے کئی رسالوں کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے جن میں سے (ادب لطیف) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔مرزا ادیب کا ڈراما شہید پاکستان کی نصابی کتب میں بھی شامل ہے۔

مرزا ادیب ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے ان کئی کے کئی فیچر اور ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے جن کو شہرت عام حاصل ہوئی۔ ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعزاز میں انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں وفات پاگئے۔

تبصرہ بر خط:

“صحرا نورد کا نیا خط” دراصل ایک صحرا نورد کے قلم سے لکھی گئی ایک بستی کی روداد ہے، جو خط کی صنف میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ خط محض کسی مخصوص فرد کو مخاطب کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک وسیع سماجی تناظر میں انسانی جذبات، معاشرتی جبر، اور نسوانی خودداری کی کہانی ہے۔

مرزا ادیب کا  “صحرا نورد کا نیا خط” اردو افسانوی ادب کا ایک شاندار نمونہ ہے، جس میں زندگی، جدوجہد، جذبات اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں کو اس قدر فنی مہارت سے پیش کیا گیا ہے کہ قاری بے ساختہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس  کا بنیادی اور  مرکز ی کردار “ننی” ہے، جو محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے—عزم، حوصلے، خودداری اور نسوانی وقار کا استعارہ۔

کہانی کا آغاز ایک ملاحوں کی بستی کے نہایت جاندار اور تصویری منظرنامے سے ہوتا ہے، جہاں شام کے دھندلکے میں مکان گویا بچوں کے بنائے گھروندے دکھائی دیتے ہیں۔ مرزا ادیب نے اس تمہیدی منظرنگاری کو محض تفصیل کی خاطر نہیں بلکہ نفسیاتی اور علامتی طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ منظر قاری کو آنے والے المیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتا ہے۔ یہاں منظر کی جزئیات کہانی کی فضا سازی کے لیے استعمال ہوئی ہیں، جس سے ایک تخلیقی تاثر جنم لیتا ہے۔

خط کے آغاز میں بستی کے شام کے وقت کے دلکش اور علامتی منظر میں مکانوں کو “بچوں کے گھروندوں” سے تشبیہ دے کر بستی کی کمزور، عارضی اور سہمی ہوئی فضا کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ منظر ایک تمثیل ہے جو قاری کو مستقبل کے واقعات کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتا ہے۔

خط کا مرکزی کردار “ننی” ایک ملاح کی بیٹی ہے، جو اپنے باپ کی حادثاتی موت کے بعد روایتی صنفی حدود کو توڑتی ہوئی خود محنت کرتی ہے، کشتی چلاتی ہے اور بستی میں مردوں کے برابر مقام حاصل کرتی ہے۔ ننی کا کردار نسوانی خودمختاری اور وقار کی علامت ہے۔ “ننی” ایک غیر معمولی کردار ہے جو نسوانی کمزوریوں کی بجائے ایک مضبوط، پرعزم اور خوددار شخصیت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ محض حالات کا شکار نہیں بلکہ خود حالات کی خالق ہے۔ ایک ملاح کی بیٹی ہونے کے ناطے وہ کشتی چلا کر اپنی اور اپنی ماں کی کفالت کرتی ہے۔ جب بستی کا سردار اس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے، تو وہ انکار کر کے بغاوت کا اعلان کرتی ہے۔ یہی بغاوت اس کی جلاوطنی کی وجہ بنتی ہے، لیکن وہ اس جلاوطنی کو شکست کے بجائے نئی جہت سمجھ کر قبول کرتی ہے۔

مرزا ادیب نے ننی کے کردار کو نہایت باریکی سے تراشا ہے۔ وہ شوخ و چنچل ہے، مگر اس کی شوخی میں سطحیت نہیں بلکہ ایک وقار ہے۔ اس کی سنبل سے مسابقت، ہامو سے خاموش محبت، اور کشتی کے مقابلے میں سنبل کی کشتی میں سوراخ کرنا—یہ سب اس کی جذباتی گہرائی اور انسانی کمزوریوں کو حقیقی انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ ننھی جذبات میں بہتی نہیں بلکہ ان پر قابو پانا جانتی ہے، جو اس کی شخصیت کو اور بھی معتبر بنا دیتا ہے۔

اس کہانی میں محبت کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو انسان کو بغاوت، قربانی اور قبولِ جرم جیسے مراحل سے گزارتی ہے۔ جب ننی سردار کے سامنے اپنی محبت کا اقرار کرتی ہے اور اپنے کیے گئے جرم کو تسلیم کرتی ہے، تو وہ محض جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ایک مکمل، باوقار شخصیت کی جھلک دیتی ہے یعنی اس خط میں محبت ایک قوت محرکہ ہے جو بغاوت، قربانی، اور قبولیتِ جرم جیسے مراحل سے گزر کر کردار کو کمال تک پہنچاتی ہے۔ مرزا ادیب کا قلم اس بیانیے میں نہ صرف مناظر کو زندہ کرتا ہے بلکہ قاری کو کرداروں کی سوچ میں شریک بھی کرتا ہے۔مرزا ادیب کا بیانیہ نہایت مضبوط ہے۔ وہ مناظر کو صرف دکھاتے نہیں بلکہ محسوس کراتے ہیں۔ زبان و بیان میں روانی، منظرنگاری میں مصوری، اور کردار نگاری میں نفسیاتی گہرائی اس ناول کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

ننی کا ہامو سے خاموش تعلق اور سنبل سے کشمکش بھی نسائی نفسیات کو عمیق انداز میں پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر کشتی میں سوراخ کرنا، سنبل کو ہرادینا، اور بعد ازاں اپنے جرم کا اعتراف کرنا، سب کچھ اس کے کردار کی تہہ داری کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ جذباتی بھی ہے، مگر جذبات کی گرفت میں مغلوب نہیں ہوتی۔

“صحرا نورد کا نیا خط” اردو ادب میں خط کی صنف میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے، جہاں ایک معمولی سی بستی اور ایک عام سی لڑکی کے ذریعے معاشرتی ڈھانچے، انسانی رشتوں اور عورت کی عزتِ نفس پر گہری روشنی ڈالی گئی ہے۔ مرزا ادیب کا یہ خط حقیقت نگاری، منظر نگاری، اور کردار نگاری کا حسین امتزاج ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ معاشرتی ترقی میں عورت کی خودمختاری اور احترام کس قدر اہم ہے۔

“صحرا نورد کا نیا خط” ایک ایسی کہانی ہے جو نہ صرف کہانی کے سطحی بہاؤ پر چلتا ہے بلکہ انسانی جذبات، سماجی جبر، عورت کی خودی، اور محبت کے مختلف رنگوں کو فنی انداز میں اجاگر کرتا ہے۔ ننی کا کردار اردو ادب میں نسوانی کرداروں کے سلسلے میں ایک بلند اور معتبر مثال ہے۔ مرزا ادیب کا یہ فنی کارنامہ ایک منفرد اسلوب، نفسیاتی عمق اور جذباتی وسعت کا حامل ہے، جسے اردو افسانوی ادب میں خاص مقام حاصل ہے۔

کہانی کے آخر میں مصنف بیان کرتا ہے  کہ کیسے دکھ اور غم ننی کو کندن بناتے ہیں اور اس کی زندگی کو ایک بہت بڑا مقصد دیتے ہیں ۔ اتنا بڑا مقصد کہ ننی روشنی کا منبع بن جاتی ہے اور اس کے مقصد میں آڑے آنے والا ہر رشتہ تیاگ دیتی ہے بستی کی مخالفت سہتی ہے لیکن بھولے بھٹکے مسافروں کو اندھیری رات میں حفاظت سے ان کی منزل تک  پہنچانے کا فیصلہ ترک نہیں کرتی یہاں تک کہ اپنی محبت بھی کھو دیتی ہے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتی۔

ننی کا روحانی سفر اور استعارۂ روشنی

ننی کے کردار کی روح میں جھانکا  جائے تو جو  نکتہ نکلتا  ہے وہ کہانی کی سب سے گہری معنوی پرت کو چھوتا ہے۔ننی کی زندگی کا دھارا اس وقت بدل جاتا ہے جب وہ اپنی ماں کو اندھیری رات میں کھو دیتی ہے۔ یہ حادثہ نہ صرف ذاتی صدمہ ہے بلکہ ایک علامتی موت ہے ۔  ماں  کا وجود تحفظ، روشنی اور پیار کا استعارہ ہے، جس کے گم ہو جانے سے ننی ایک ایسی تاریکی میں داخل ہوتی ہے جہاں اسے خود چراغ بننا ہوتا ہے۔

یہ دکھ، یہ زیاں، ننی کو کندن بناتا ہے ۔ وہ تکلیف سے گزر کر وہ روشنی پا لیتی ہے جو اسے دوسروں کے لیے بھی چراغ راہ بنا دیتی ہے۔ننی کا کردار یہاں صوفیانہ رنگ اختیار کرتا ہے۔ وہ اب صرف ایک لڑکی نہیں رہتی، بلکہ ایک راہ دکھانے والی ہستی میں ڈھل جاتی ہے۔ ننی کو اپنا ایک بہت بڑا مقصد نظر آتا ہے:

“اندھیری راتوں، بھٹکے راستوں اور اجنبی بستیوں میں لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچانا”

یہ مقصد صرف ایک سماجی خدمت نہیں بلکہ ایک روحانی فریضہ بن جاتا ہے  اور اس مقصد میں آنے والی ہر رکاوٹ، ہر تعلق اور ہر خواہش وہ قربان کر دیتی ہے۔ننی اپنی محبت کھو دیتی ہے، لیکن پیچھے نہیں ہٹتی۔بستی کی مخالفت اور طعن و تشنیع سہتی ہے، لیکن راہ سے نہیں ہٹتی۔وہ جانتی ہے کہ وہ اکیلی ہے، لیکن پھر بھی ہر اجنبی کی ہم سفر بننے کا عہد نبھاتی ہے۔

ننی کی یہی استقامت اسے روحانی روشنی کا منبع بنا دیتی ہے ۔ وہ اندھیری رات میں چراغ کی مانند ہے، اور اس کے پاس آ کر مسافر سمت پاتے ہیں۔یہی وہ جگہ ہے جہاں ننی کا کردار خالص استعارہ بن جاتا ہے۔وہ دکھ سے جنمی روشنی ہے۔محبت سے دستبردار لیکن ہمدردی سے مالا مال ہے۔اکیلی لیکن منزلوں کی رفیق ہے۔

ننی  کا کردار بطور صوفی استعارہ: قربانی، استقامت اور روشنی کا تصور

ننی کی شخصیت میں دکھ اور محرومی ایک ایسی تبدیلی لے کر آتے ہیں جو اس کے وجود کو محض ذاتی دکھ کی کہانی سے نکال کر اجتماعی فلاح کے ایک بڑے وژن سے جوڑ دیتے ہیں۔ ماں کی المناک موت کے بعد ننی تنہائی کے عمیق احساس سے گزرتی ہے، لیکن وہ اسی تنہائی کو اپنا ہتھیار بنا لیتی ہے۔ وقت کے ساتھ  وہ ایک ایسی قوت میں ڈھل جاتی ہے جو بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے نہ صرف رہنما بنتی ہے بلکہ ان کی نجات کا وسیلہ بھی۔

ننی کا سفر قربانی سے شروع ہو کر تسلسل اور خودسپردگی تک جاتا ہے۔وہ ہر اس تعلق سے ہاتھ اٹھا لیتی ہے جو اس کے مقصد میں رکاوٹ بن سکتا ہو، چاہے وہ محبت ہو یا سوسائٹی کی قبولیت۔ وہ زندگی کو ذاتی تسکین کے بجائے ایک ذمے داری کے طور پر جیتی ہے، اور یہی طرزِ فکر اسے ایک عام لڑکی سے مختلف بنا دیتا ہے۔ ننی کا کردار دکھاتا ہے کہ جب انسان کسی بلند تر نصب العین سے جڑ جائے، تو وہ اپنے ذاتی زخموں سے اوپر اٹھ کر ایک روشنی بن سکتا ہے، جو دوسروں کے لیے راستے روشن کرتی ہے۔

جوہری بازدارندگی اورقومی وقار: 28 مئی کی میراث Previous post جوہری بازدارندگی اورقومی وقار: 28 مئی کی میراث
پاکستان کی بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان کی شدید مذمت Next post پاکستان کی بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان کی شدید مذمت