
اپنا دفاع دوسروں کے سپرد کبھی نہ کریں
جب اسرائیل نے قطر پر آگ برسانا شروع کی تو دنیا نے صرف آسمان کی طرف نہیں دیکھا بلکہ زمین کی طرف بھی نظریں دوڑائیں؛ اُس امریکی اڈے کی طرف جو العدید میں واقع ہے—یہ مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، جو عرب دولت سے تعمیر ہوا، جہاں لگ بھگ دس ہزار فوجی تعینات ہیں اور جو جدید ترین جنگی طیاروں اور ہتھیاروں سے لیس ہے۔ یہ اڈہ برسوں تک قطر کی حتمی سلامتی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا، مگر عین وقت پر جب اُس سے حرکت درکار تھی، وہ پتھر کی مانند ساکت رہا۔ نہ کوئی طیارہ اُڑا، نہ کوئی فوجی حرکت میں آیا۔ وہ دفاع جس پر بے شمار دولت خرچ کی گئی تھی، اُس لمحے ریزہ ریزہ ہوگیا جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
یہ کسی حادثے یا کوتاہی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا سکوت تھا۔ مسلم حکمرانوں اور پوری اُمت کے لیے اس میں سبق بالکل واضح ہے: اپنا دفاع کبھی دوسروں کے حوالے نہ کریں، کیونکہ جب فیصلہ کن گھڑی آئے گی تو وہ ذمہ داری ادا نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے ہی خبردار کیا ہے:
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو تم میں سے اُنہیں دوست بنائے گا، وہ یقیناً انہی میں سے ہوگا۔ (المائدہ: 51)
اعداد و شمار پر غور کیجیے۔ قطر میں مستقل طور پر دس ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جن کی تنخواہیں، رہائش، خوراک اور اسلحہ واشنگٹن نہیں بلکہ دوحہ فراہم کرتا ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر اس غیر ملکی فوج پر خرچ کیے جاتے ہیں، اور جب آزمائش کی گھڑی آئی تو اس نے خاموشی کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہی کہانی پورے عرب خطے میں دہرائی جاتی ہے۔ کویت، بحرین، سعودی عرب اور امارات میں بھی چالیس سے پچاس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں—اور یہ سب اپنے عرب میزبانوں کے خرچ پر۔ جن ممالک کو اپنی طاقت بڑھانی چاہیے تھی وہ دوسروں کے لشکر پال کر کمزور ہورہے ہیں۔
جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا تو ان کرائے کے لشکروں نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی طیارہ اُڑا، نہ کوئی میزائل روکا گیا۔ جو اڈے کبھی قلعے کہلاتے تھے وہ خاموش یادگاریں بن کر رہ گئے۔ تاریخ ایسے دھوکوں سے بھری ہوئی ہے؛ جو قومیں اپنی خودمختاری دوسروں کے سپرد کرتی ہیں ہمیشہ تنہا چھوڑ دی جاتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مشرکین کی آگ سے روشنی نہ لو۔ (مسند احمد، حدیث 2346)
آج یہ حدیث کتنی معنی خیز ہو گئی ہے، جب مسلم حکمرانوں نے غیر ملکی طاقتوں سے حفاظت چاہی مگر انہی کی آگ نے انہیں جلا ڈالا جنہیں وہ روشنی سمجھتے تھے۔
امریکی سرپرستی کے سہارے امن ڈھونڈنے والے عرب حکمران ایک تلخ حقیقت کا سامنا کریں؛ واشنگٹن کی پہلی اور آخری وفاداری کبھی ان کے ساتھ نہیں رہی۔ اس کی ناقابلِ شکست وابستگی ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ رہی ہے۔ قطر کا واقعہ اس حقیقت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر گیا ہے۔ امریکی اڈے عربوں کے محافظ نہیں بلکہ امریکی پالیسی کے اوزار ہیں۔ اور جب وہ پالیسی اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی کا تقاضا کرے تو خاموشی ہی اس کا جواب ہے، خواہ اربوں ڈالر کیوں نہ دیے جائیں اور کتنے ہی وعدے کیوں نہ کیے جائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) شمالی امریکا اور یورپ کے بتیس ممالک کا سیاسی و عسکری اتحاد ہے، جس کا مقصد اپنے ارکان کی آزادی اور سلامتی کا تحفظ ہے۔ اگر نیٹو یورپ اور امریکا کے لیے کامیاب ہوسکتا ہے تو پھر ایسا ہی اتحاد مسلم دنیا کے لیے کیوں نہیں؟ ایسا اتحاد جس میں عرب دنیا، پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور دیگر ہم خیال ممالک شامل ہوں تاکہ اُمت کی حفاظت کی جا سکے۔
ایسا اتحاد مختلف ناموں سے وجود میں آسکتا ہے، مثلاً ایم اے ٹی او (مسلم الائنس ٹریٹی آرگنائزیشن)، آئی ایم ڈی او (سلامک ملٹری ڈیفنس آرگنائزیشن)، ایم ڈی ایس اے (مسلم ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی الائنس) یا او آئی ایس اے(آرگنائزیشن آف اسلامک اسٹیٹس فار الائنس) نام کچھ بھی ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اتحاد اجتماعی قوت، اجتماعی تحفظ اور اجتماعی عزت پر مبنی ہو—نہ کہ کرائے کے محافظوں پر انحصار پر۔
اب اُمت کو خود سے سوال کرنا ہوگا: کب تک اس کے حکمران اپنی دولت غیر ملکی فوجوں کو کھلائیں گے جو کبھی ان کا دفاع نہیں کریں گی؟ کب تک مسلم زمینیں ان لشکروں کی میزبان رہیں گی جو انہی کے دسترخوان سے کھاتے ہیں مگر دوسروں کے جھنڈے کی حفاظت کرتے ہیں؟ کب تک اہلِ ایمان کے خزانے جھوٹی سلامتی خریدنے میں ضائع ہوتے رہیں گے؟
قرآن کہتا ہے
اور اللہ کبھی کافروں کو مومنوں پر غلبہ عطا نہ کرے گا۔ (النساء: 141)
لیکن جب مومن خود اپنے اختیار سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی حفاظت دوسروں کو سونپ دیں تو وہ اپنے ہاتھوں ذلت کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کروڑوں انسانوں کا گھر ہے اور دنیا کے سب سے امیر وسائل رکھتا ہے۔ اگر یہ طاقت متحد ہوجائے تو ناقابلِ تسخیر ہوسکتی ہے۔ مگر انہیں دوسروں پر بھروسہ کرنے، اپنی بقا کرائے پر دینے اور یہ ماننے پر مجبور کیا گیا ہے کہ غیرت مندوں کا دفاع اجرتی لشکر کرسکتا ہے۔ قطر پر حملہ اس سوچ کو دفن کرنے کے لیے آخری جھٹکا ہونا چاہیے۔
حقیقت واضح ہے: کوئی قوم اپنا دفاع خرید نہیں سکتی۔ خودمختاری کرائے پر نہیں دی جا سکتی۔ تحفظ اپنے ہاتھ سے بنایا جاتا ہے اور عزت اپنے خون سے بچائی جاتی ہے۔ دوسروں پر بھروسہ کرنا دھوکے کو دعوت دینا ہے اور اپنے دھوکے باز کو پالنا سب سے بڑی حماقت ہے۔
مسلم دنیا کے حکمرانوں کو قطر کے امتحان کے آئینے میں جھانکنا ہوگا اور سوچنا ہوگا؛ کیا وہ ان لوگوں سے تحفظ خریدتے رہیں گے جو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، یا اپنی قوم اور اپنی فوجوں کے اندر طاقت پیدا کریں گے؟ انتخاب ان کے ہاتھ میں ہے، مگر تاریخ کوتاہی کو معاف نہیں کرے گی۔ جو قومیں اپنا دفاع نہیں کرتیں وہ صرف شکست نہیں کھاتیں بلکہ مٹ جاتی ہیں۔
قطر کی بے وفائی ہر محل اور ہر پارلیمان میں گونجنی چاہیے۔ اسے نہ بھلایا جائے، نہ معاف کیا جائے۔ یہ اُمت کو اس دیرینہ حقیقت کا بیدار کردے کہ دوسروں پر انحصار ذلت کی راہ ہے، اور اپنی طاقت پر اعتماد بقا کا واحد راستہ۔