
اب ہم عزت کے قابل ٹھہرے
پاکستان آج اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں دنیا کی نظریں اس پر اب ایک کمزور یا جدوجہد کرتی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ اعتماد اور قوت سے دوبارہ جنم لینے والی ایک قوم کے طور پر ٹکی ہوئی ہیں۔ شاید کرکٹ کے میدان کے سوا، یہ ملک ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عزت اور کامیابی سے بہرہ مند ہوا ہے، چاہے وہ سفارت کاری ہو یا دفاع۔ قرآن مجید ایک لازوال اصول یاد دلاتا ہے: ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے‘‘ (سورہ رعد: 11)۔ پاکستان کی قسمت میں حالیہ برسوں میں آنے والی یہ حیرت انگیز تبدیلی کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک شعوری جدوجہد اور قربانیوں پر مبنی عمل ہے۔
یہ تبدیلی اپنی انتہا کو اس رات کو پہنچی جب 8 اور 9 مئی 2025 کو بھارتی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں آپریشن "بنیان المرصوص” شروع کیا گیا۔ یہ صرف ایک فوجی کارروائی نہ تھی بلکہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کن لمحہ تھی۔ دنیا طویل عرصے تک پاکستان کو بھارتی جارحیت کے مقابلے میں محض ردعمل دینے والا ملک سمجھتی رہی، مگر اس رات ہماری عسکری قیادت نے ایسی برق رفتاری اور غیر معمولی مہارت سے پلٹا مارا کہ ماہرین بھی حیران رہ گئے۔ یہ صرف میدانِ جنگ کی کامیابی نہ تھی بلکہ اس خواب کی تعبیر تھی جو 1947 سے سینوں میں پل رہا تھا—کہ پاکستان اپنی خودمختاری کا دفاع جرات اور کامیابی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس بار بھارتی ناقابلِ شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا اور دنیا نے پاکستانی افواج کی نظم و ضبط، صلاحیت اور عزم کا اعتراف کیا۔
اس فتح نے دنیا میں پاکستان کی شبیہ کو ازسرِ نو متعین کر دیا۔ وہی مخالفین جو پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے کے درپے تھے، اب اس کی قوت کے معترف ہوگئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا تو پاکستان نے خاموش رہنے کے بجائے یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک اور امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ ایک برادر اسلامی ملک کے دفاع کی ہماری تیاری نے ہمیں خلیجی ممالک کے مزید قریب کر دیا اور سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ محض علامتی نہ تھا، بلکہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کو اب اسلامی دنیا کی ڈھال سمجھا جانے لگا ہے۔ قرآن کا وعدہ ہے: ’’اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘ (سورہ محمد: 7)۔
عالمی سطح پر بھی پاکستان کی آواز زیادہ توانا اور معتبر ہو گئی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے غیر معمولی وضاحت اور قوت کے ساتھ غزہ، کشمیر اور اسلامی اتحاد کے معاملات پر بات کی۔ یہ صرف تقریریں نہ تھیں بلکہ ان کے پیچھے سفارتی کوششیں، امدادی قافلے اور عوامی تحریکیں موجود تھیں۔ یہاں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا کردار خصوصی ذکر کا مستحق ہے۔ انہوں نے غزہ کے لیے "گلوبل فریڈم فلوٹیلا موومنٹ” میں عملی طور پر شمولیت اختیار کر کے پاکستان کو عالمی ضمیر کی ایک بڑی تحریک سے جوڑ دیا۔ اس پرخطر راستے پر قدم رکھ کر مشتاق احمد خان پہلے پاکستانی سابق رکن پارلیمان بنے جنہوں نے اس تحریک سے وابستہ ہو کر دنیا کو یاد دلایا کہ فلسطین کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی محض زبانی نہیں بلکہ عملی، جیتی جاگتی اور واضح ہے۔
واشنگٹن میں بھی پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔ جہاں پہلے بداعتمادی اور کشیدہ تعلقات تھے، وہاں اب تعریف اور پاکستان کی علاقائی استحکام میں اہمیت کا اعتراف دکھائی دیا۔ دفاعی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور تجارتی بات چیت نئی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کئی دہائیوں کی ناہموار سفارت کاری ایک نئے باب میں داخل ہو گئی ہو۔
تاہم ان کامیابیوں کے درمیان ہمیں فخر کے ساتھ احتیاط کو بھی ساتھ رکھنا ہوگا۔ دہشت گرد نیٹ ورکس، جو اکثر دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی پشت پناہی سے چلتے ہیں، اب بھی ہماری سرزمین پر خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری افواج پر حملے، فرقہ وارانہ دراڑیں اور معیشت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں اس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جو پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم چوکس رہیں اور اپنی اتحاد کو اندرونی یا بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں کمزور نہ ہونے دیں۔
اس موقعہ پر ایک اور خطرہ بھی محسوس ہوتا ہے—وہ یہ کہ ہم کہیں اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو جائیں ۔ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہر بڑھا ہوا ہاتھ مخلص نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کی ابھرتی طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہوں، اس لیے آنے والا راستہ صرف جرات ہی نہیں بلکہ حکمت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
پاکستان کے نئے مقام کے تجزیے سے تین حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، محض فوجی کامیابیاں عزت کو قائم نہیں رکھ سکتیں جب تک ان کے ساتھ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی نہ ہو۔ دوم، عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا ایک نازک شے ہے—اسے مسلسل سفارت کاری، اصولی خارجہ پالیسی اور اندرونی اتحاد سے پروان چڑھانا ہوگا۔ سوم، قیادت کا اصل امتحان فتح حاصل کرنے میں نہیں بلکہ اسے تکبر، خود فریبی اور اندرونی اختلافات سے محفوظ رکھنے میں ہے۔
یوں پاکستان کی موجودہ بحالی اللہ کی عطا بھی ہے اور ایک ذمہ داری بھی۔بے شک یہ اللہ ہی کی عطا ہے جس نے اس قوم کو اس کی کوتاہیوں کے باوجود نوازا، مگر یہ ہر پاکستانی پر ذمہ داری بھی ہے کہ اس عزت کو محفوظ رکھے اور آگے بڑھائے۔ عزت نعروں سے قائم نہیں رہتی بلکہ عمل سے—اداروں کو مضبوط بنانے، کرپشن کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور انصاف کی فراہمی سے۔
دنیا اب پاکستان کو ایک جرات مند اور استقامت رکھنے والی قوم کے طور پر دیکھتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود کو بھی اسی روشنی میں دیکھ پائیں گے؟ اور کیا ہم اس عزت کو اتحاد، حکمت اور غیر متزلزل ایمان کے ساتھ محفوظ رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ اگر ہاں، تو پاکستان کا مستقبل نہ صرف محفوظ بلکہ عظمت کے وعدے سے روشن ہے۔