
سانحہ پہلگام ۔۔ بھارت کی پست ذہنیت کا شاخسانہ
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے90 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت سیاحتی مقام پہلگام میں سورج معمول کے مطابق طلوع ہوا اور بھارت اوربیرونی ممالک سے آئے ہوئے سیاح جنت نظیر کشمیر کے حسن وجمال سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک نامعلوم افراد جو پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے نمودار ہوئے اور اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے آناًفاناً 27 کے قریب سیاحوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا۔ ابھی ان گولیوں کی ترتراہٹ کی گونج اور زخمیوں کی آہ وبکاء ابھی بلند بھی نہ ہوئی تھی کہ پہلے سے تیار بیٹھے ہوئے بھارت کے تمام سماجی وبرقی ذرائع ابلاغ نے حسب روایت پاکستان کو ملوث کرتے ہوئے طعن وتشنیع کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا۔
جس سے پورے بھارت میں ایک جنگی ماحول پیدا کر کے تمام شہریوں کے جذبات کو ابھارا جانے لگا اور یوں لگ رہا تھا کہ ابھی کہ ابھی پورا بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑے گا لیکن اس زہرآلود فضا اور سخت کشیدگی کے ماحول میں بھی بھارتی عوام کی اکثریت نے اپنے نیتاؤں کی ان توجیحات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے 6 سال پہلے 14 فروری 2019ء کو ہونے والے پلوامہ کے واقعے کی دوسری شکل کے طور پہ دیکھنا شروع کر دیا جس میں نریندر مودی کی مکار مہم جویانہ طبیعت کی وجہ سے ایک کار بم دھماکے میں 44 فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور جس کو بنیاد بنا کر اس نے فضائی دہشتگردی کی جسارت کی لیکن پاکستان نے شاہینوں نے ان کے دانت کھٹے کر کے ان کی سات آسمانوں کو چھوتی رعونت کو زمین کی سات تہوں میں دھنسا دیا اور پاکستان نے سب کچھ نظرانداز کرتے ہوئے ان کے گرفتار شدہ ہواباز ابی نندن کو مزیدار سی چائے پلا کر واپس بھیجا تا کہ وہ جا کے انہیں بتائے کہ پاکستان کوئی ترنوالہ نہیں اور نہ ہی پاکستان کی فوج اپنے مادروطن کی حفاظت کے فرض سے غافل ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بھارت ہر وقت اور کسی بھی جگہ پاکستان کو زچ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اپنے انہی معاندانہ اور شاطرانہ رویوں کی وجہ سے ہر بار منہ کی کھانے کے باوجود اپنی مکارانہ روش سے باز نہیں آتا اور اپنے اسی مذموم کھیل میں اپنے عوام کی زندگیاں بھی داؤ پہ لگا دیتا ہے۔ اس وقت بھی بھارت کی حکومت، جس کی بھاگ دوڑ گذشتہ11سالوں سے ایک انتہاء پسند جماعت کے ہاتھ میں ہے، کو ایک بہت بڑی آزمائش کا سامنا ہے جو اس نے مسلمانوں کی جائیدادوں کے بارے میں متنازعہ وقف بل لا کر خود اپنے اوپر مسلط کی ہے اور اپنی سب سے بڑی مسلمان اقلیت کو اپنے مقابل لابکھڑا کیا ہے حالانکہ یہ مسلمان اقلیت اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود ہر مرحلے پر اسی کی حمایت کرتی رہی ہے لیکن ہر بار یہ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر ان کے خلاف ہی کوئی نیا محاذ کھول دیتے اور مسلمان چپ چاپ ان کے استحصال کا شکار بھی ہوتے رہتے۔
اس دفعہ انہوں نے اپنی طاقت کے زعم میں زخم خوردہ سوئے ہوئے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈال دیا لیکن انہیں اپنی توقعات کے برعکس شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور پورے بھارت کی 20 کروڑ کی مسلمان اقلیت ان کے مقابل آگئی کیونکہ ان کے پاس لے دے کے مذہبی شناخت ہی باقی رہ گئی تھی جس کو اب بی جے پی کی انتہاء پسند حکومت خس وخاشاک کی طرح اڑادینے کی کوشش میں تھی اگر بھارتی حکمرانوں میں کچھ غیرت ہوتی تو وہ ہمیشہ مسلمانوں کے شکرگزار رہتے کیونکہ اگر ہندوستان کی تاریخ میں سے مسلمانوں کا ہزار سالہ دور نکال دیا جائے تو پیچھے ان کے پاس دنیا کو دکھانے کو کچھ بھی نہیں بچتا سوائے شمشان گھاٹ، جھگیوں اور کنڈیوں کے۔ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ امن پسند ہندوؤں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کی بھی شدید مخالفت کا سامنا کرناپڑا جو کہ اس کی توقعات سے بالکل برعکس تھا۔
اس متنازعہ بل کی آڑ میں مسلمانوں کی تمام املاک حتیٰ کہ ان کے مذہبی شعائر، جن میں مساجد خاص طور پر نشانہ ہیں، کو قومی تحویل میں لینے کا عندیہ دیا گیا۔ اس کی مخالفت میں پورے بھارت میں ہونے والی محاذآرائی اور کشیدہ صورتحال سے اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لیے اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لیے بےگناہ سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ وہ اس کی آڑ میں ایک تو مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرے اور اس میں پاکستان کو ملوث کر کے اپنی مہم جوئی کا جواز پیدا کر لے لیکن بھارت کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ ماضی کے سبق جلد بھلا دیتا ہے اور پاکستان کو اسے دوبارہ یہ سبق یاد کروانا پڑتا ہے۔
بھارت ایک تو اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے پریشان ہے اور دوسرا بھارت کو اپنی ناجائز زیر قبضہ سات ریاستوں میں بغاوت کا بھی سامنا ہے جس نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور اس کے اپنے عسکری و میڈیائی تردماغوں اور برزجمہروں، جن کی وجہ سے ہی اسے یہ دن دیکھنا پڑا، کی بھی سٹی گم ہوگئی کہ انہوں نے دھوکے سے بلی کے گلے میں گھنٹی تو باندھ دی لیکن اب اسے کھولنے کی ترکیب کسی کے پاس نہیں۔ بھارت نے نتائج کا انداز کیے بغیر پاکستان کے خلاف پورے بھارت میں جنگی ماحول تو پیدا کر دیا ہے لیکن بھارت کے عوام کی اکثریت نے اس پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ بھارت حکومت اپنے پرامن پڑوسیوں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے رکھنے کے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ، گولہ بارود اور توپ وتفنگ جمع کرنے کی جتنی دھن میں مگن رہتاہے اور اس کے لیے وہ وسائل کی ایک بڑی مقدار اس میں جھونک دیتا ہے وہ اگر ان وسائل کا کچھ حصہ ہی بھارتی عوام کو جائز سہولتیں فراہم کرنے میں صرف کربدے تو ان کی زندگیاں آسان ہوجائیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں جنہیں تن ڈھانپنے کے لیے دو کپڑے دستیاب نہیں اور ان کے سروں پر کوئی چھت نہیں اور وہ فٹ پاتھوں اور ندی نالوں کے پلوں اور ان کے پائپوں میں زندگی گزارنے پر مجبوربہیں لیکن بھارت کی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں اور اسے اپنی بدنام زمانہ مجرمانہ طبیعت کو سکون دینے سے فرصت نہیں۔
بھارت کی اس مہم جوئی کے شوق نے پاکستان کے ہر طبقے کو، چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں یا تجارتی، اپنے مادروطن کے دفاع کے لیے متحد اور یکسو کر دیا ہے اور جو اس واقعے سے قبل، جو بظاہر بکھرے ہوئے تھے اور ان کی اپنی اپنی سوچ اور فکر تھی، ان میں ایک نئی خوشگوار روح پھونک دی اور انہوں نے اپنے اس نئے روپ سے دنیا اور خاص طور پر بھارت کے ناعاقبت اندیش اور اپنی کھوکھلی طاقت کے زعم میں مبتلا اس کے نیتاؤں کو انگشت بدنداں کر دیا جو اب اس سے بچ نکلنے کی جستجو کر رہے ہیں!!!
؎ اے دشمن دیں تو نے، کس قوم کو للکارا!!
لے ہم بھی ہیں صف آراء!!!!