نوجوان اہل قلم کی مضافاتی ادب پر مکالماتی نشست، اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے اقامتی منصوبے کا اہم سنگ میل
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیرِ اہتمام پہلے دس روزہ اقامتی منصوبے میں ملک بھر سے آئے ہوئے نوجوان اہلِ قلم نے اپنی اقامت کے دوسرے روز 17 جنوری 2025ء کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملحقہ شہر راولپنڈی کے نوجوان اہل قلم سے ملاقات کی۔ اس موقع پر اکادمی کے ڈائریکٹر جناب عاصم بٹ اور ڈپٹی ڈائریکٹر جناب اختر رضا سلیمی، جو خود معروف اہلِ قلم ہیں، نے مہمان اہلِ قلم کا مقامی اہلِ قلم سے تعارف کرایا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ جناب کامران کاظمی خصوصی طور پر شریک ہُوئے۔ محترمہ صنوبر الطاف، ڈاکٹر بی بی امینہ، محترمہ فاطمہ عثمان ، جناب منیر فیاض، جناب الیاس بابر اعوان، جناب حمزہ حسن شیخ، جناب وقاص عزیز، جناب ذیشان حیدر، جناب جمیل اختر، جناب عثمان عالم، محترمہ خدیجہ طاہرہ اور دیگر نے مہمان اہلِ قلم سے علمی و ادبی تبادلہء خیال کیا۔
جناب عاصم بٹ نے اکادمی کے تحت اس اقامتی منصوبے کے اغراض و مقاصد اور افادیت پر مختصر گفتگو کی۔ جناب کامران کاظمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انھوں نے شرکا کے درمیان مکالمے کی خوب صورت فضا قائم کرکے اس ملاقات کو یادگار ادبی نشست میں تبدیل کیا۔ نوجوان ایل قلم نے اکادمی کے اقامتی منصوبے کو بے حد سراہا اور کہا کہ اس منصوبے میں شریک اہلِ قلم یہاں سے بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے اور ہمیں بھی ان سے مل کر مضافاتی ادب اور ادیبوں کے معاملات سے جان کاری ملے گی۔ اس ملاقات میں پاکستان کے طول و عرض میں تخلیق ہونے والے ادب اور پاکستان کی مجموعی ادبی صورتِ حال پر شرکا نے سیر حاصلِ گفتگو کی۔ اقامتی منصوبے کے مضافاتی ادیبوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ادب کی صورت حال، وسائل کی کمی اور دیگر مسائل سے شرکا کو آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے مضافاتی ادب مرکزی دھارے میں مکمل طور شامل نہیں ہو پاتا۔ تاہم موجودہ اقامتی منصوبے کی طرح کی سرگرمیوں سے اس کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مقامی نوجوان اہل قلم نے اقامتی ادیبوں کی ادب سے لگن کی تعریف کی اور ان کے ادبی کام کی ستائش کی۔ نوجوان اہل قلم کا کہنا تھا کہ اصل ادب اُن مضافات میں تخلیق ہوتا ہے جن کی اپنی مٹی سے مضبوط جڑت ہو۔ اس لحاظ سے مضافاتی شعرا خوش قسمت ہیں کہ وہ مناظر فطرت سے جڑے ہیں۔
آخر میں اکادمی کے ناظم جناب محمد عاصم بٹ نے گفتگو کو سمیٹے ہوئے کہا کہ پاکستان نے جو بڑے ادیب پیدا کیے ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق مضافات سے رہا ہے۔ مضافات میں خالص اور بڑا ادب تخلیق ہوا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں جناب محمد عاصم بٹ نے کہا کہ علامت کے بغیر کوئی کہانی نہیں ہوتی اور نہ کوئی بڑا ادب تخلیق ہوتا ہے۔ انھوں نے کمرشلزم اور پاپولر ادب کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ آخر ان کے لکھنے میں بھی تو کوئی ہنر ہے جس کی وجہ سے لوگ ان کی تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔
آخر میں جناب محمد عاصم بٹ نے تمام شرکا اور خاص کر مقامی نوجوان اہل قلم کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اقامتی منصوبے کے اہل قلم سے مکالمہ کیا۔
ملک بھر سے آئے اہلِ قلم مہمانوں میں جناب محمد ضیا المصطفیٰ، جناب عبدالحفیظ (حفیظ تبسم)، جناب کاشف ناصر، ڈاکٹر ثناور اقبال، حافظ محمد نعیم عباس (نعیم یاد)، سید آصف حسین شاہ، سید قیس رضا، محترمہ ارم امتیاز اعوان، جناب محمد ولی صادق، جناب محمد مسلم، جناب ندیم گلانی، جناب اسحاق رحیم، جناب مہر اللہ نالوی، جناب ذاکر قادر، جناب زبیر احمد، محترمہ ارم جعفر، جناب طفیل عباس، اور جناب مستفیض الرحمان شامل تھے۔