پاکستان

“پاکستانی ادب، فلسطین کے تناظر میں” کے موضوع پر اکادمی ادبیاتِ پاکستان میں تقریب کا انعقاد، فلسطینی سفیر اور ممتاز شخصیات کی شرکت

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی تازہ مطبوعات کے اجرا کے سلسلے کی دوسری تقریب “پاکستانی ادب، فلسطین کے تناظر میں” کے موضوع پر تھی جو 21 جنوری کی دوپہر کو منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت جناب سردار مسعود خان (سابق صدر آزاد کشمیر و سابقِ سفیرِ پاکستان) نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی فلسطین کے سفیر جناب زہیر درزید تھے۔ صدرنشیں اکادمی ادبیاتِ پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف نے استقبالیہ و تعارفی کلمات کہے۔ مہمانانِ اعزاز میں پروفیسر جلیل عالی، جناب علی اکبر عباس، اور پروفیسر ڈاکٹر احمد شجاع سید شامل تھے۔ اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی فلسطین کے تناظر میں مطبوعات پر گفتگو کے سلسلے میں جناب حسن منظر نے آن لائن اظہار خیال کیا اور اُن کے اُردو ناول “حبس” کی انگریزی مترجم ڈاکٹر عاصمہ منصور نے نہ صرف “سفوکیشن” کے ترجمے کے حوالے سے گفتگو کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اقوامِ شرق کو اپنی جداگانہ اشاعتی اقدار متعارف کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ بینُ الاقوامی اشاعتی اقدار بالعموم صرف استعماری و نوآبادیاتی طاقتوں کے نقطۂ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ “سہ ماہی ادبیات اطفال” کے فلسطین نمبرز پر جناب احمد حاطب صدیقی نے جبکہ “سہ ماہی ادبیات” کے فلسطین نمبرز پر ڈاکٹر جمیل اصغر جامی نے گفتگو کی۔ انھوں نے اِن رسائل کے انگریزی تراجم کرانے کی تجویز بھی پیش کی۔ نظامت کے فرائض جناب محبوب ظفر نے انجام دیے۔ اکادمی کے تحت منعقد ہونے والے نوجوان اہلِ قلم کے دس روزہ اقامتی منصوبے کے شرکا نے بھی اِس تقریب میں شرکت کی۔

فلسطین کے سفیر جناب زہیر درزید نے کہا کہ فلسطینی عوام کے دلوں میں پاکستانیوں کے جذبۂ یگانگت کی بے حد قدر ہے۔ انھوں نے کہا کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فلسطین کے حوالے سے دو ٹوک مؤقف تھا۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی عوام 1948ء سے چِلا چِلا کر اقوامِ عالم کو مخاطب کر رہے ہیں مگر کوئی مقتدر ملک ان کی چیخ و پکار سننے کو تیار نہیں۔ انھوں نے ادبی دُنیا میں مسئلۂ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لیے اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی حالیہ طباعتی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔

سابق صدر آزاد جموں و کشمیر و سابق سفیر جناب سردار مسعود احمد خان نے اہلِ فلسطین کو خراجِ تحسین پیش کیا جو ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ گئے ہیں۔ انھوں نے فلسطین میں ہونے والی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کی۔ صدر نشیں اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے کہا کہ فلسطین کی موجودہ صورتِ حال کو “جنگ” کہنے کے لیے اخلاقی دیوالیہ پن کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ نہیں بلکہ “نسل کُشی” ہے جو انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے حالیہ مطبوعات کی صورت میں اقوامِ عالم کے سامنے مسئلۂ فلسطین پر پاکستانی اہلِ قلم کے نقطۂ نظر کو پہنچانے کی ایک کوشش کی ہے۔ یہ نقطۂ نظر معذرت خواہانہ نہیں، دو ٹوک ہے۔ انھوں نے کہا کہ کل تاریخ محاسبہ کرے گی کہ ہمارے اہلِ قلم کس حد تک مظلوم کے ساتھ کھڑے ہُوئے۔ مہمانانِ اعزاز پروفیسر جلیل عالی، جناب علی اکبر عباس، اور ڈاکٹر احمد شجاع سید نے بھی پاکستانی اہلِ قلم کی طرف سے فلسطینیوں کی جرات و حمیت کو سلام پیش کیا اور اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی اشاعتی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

بیلاروس Previous post بیلاروس کے صدر لوکاشینکو نے عالمی تبدیلیوں کے درمیان بیلاروس میں امن اور استحکام کے قیام کا عہد کیا
قانون سازی Next post عوام، قانون سازی اور کورم