
پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ: قربانی اور جدوجہد کی داستان

ڈائریکٹر جنرل قومی اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد.
پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک قلعے کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے امن و استحکام کے فروغ کے لیے بے پناہ انسانی اور مالی نقصانات برداشت کیے ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے قبل، پاکستان ایک نسبتاً پرامن ملک تھا، مگر سوویت توسیع پسندی کو روکنے کے لیے مغربی بلاک کے ساتھ اس کی حکمت عملی نے اسے ایک غیر ارادی میدانِ جنگ میں تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان انتہا پسندی کے لیے ایک زرخیز زمین بن گیا، جہاں بم دھماکے اور دہشت گردی کے دیگر واقعات ایک افسوسناک معمول بن گئے۔ مزید برآں، کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کی لت نے نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے پاکستان کے سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔
سرد جنگ کے دور سے لے کر نائن الیون کے بعد کی دنیا تک، پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا اور پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسند نیٹ ورکس کو ختم کرے۔ اس دوران، پاکستان کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں پتھر کے دور میں واپس دھکیلنے کی دھمکیاں اور “مزید اقدامات کرو” کے مطالبات شامل تھے۔ مسلسل تنقید اور سفارتی تنہائی کے باوجود، پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی اور دہشت گردی کے خلاف اربوں روپے خرچ کیے، پھر بھی اسے معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔
اقوام عالم کے تحفظ اور ان کے مفادات کے پیش نظر ہمارے بے شمار شہری اور سیکیورٹی اہلکار دہشت گرد حملوں اور فوجی کارروائیوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ پاکستانی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور انٹیلی جنس یونٹس بہادری سے لڑے ہیں اور اکثر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی اور بے گھر ہونے والی آبادیوں نے قوم کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
معاشی طور پر، پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ دہشت گردی کے براہ راست اور بالواسطہ اخراجات، جن میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، اور معاشی ترقی کی سست روی شامل ہیں، سینکڑوں ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ دہشت گردی سے پیدا ہونے والے عدم استحکام نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا، صنعتی ترقی کو روک دیا، اور حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کی بجائے سیکیورٹی اقدامات پر وسائل خرچ کرنے پر مجبور کر دیا۔ نتیجتاً، پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں، جیسے کہ آئی ایم ایف، پر مزید انحصار کرنے پر مجبور ہوا، جس کے باعث معاشی مشکلات اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو متاثر کیا۔
پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ خطے کے کچھ ممالک جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معمولی یا کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہوں نے اقتصادی اور اسٹریٹجک فوائد حاصل کیے ہیں۔ کچھ ممالک نے منافع بخش تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے، جبکہ عالمی برادری سے حمایت اور سرمایہ کاری حاصل کی، حالانکہ ان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان دوہرے معیارات کا اعتراف کئی عالمی رہنما کر چکے ہیں، جس سے بین الاقوامی سیاست میں موجود تضادات نمایاں ہوتے ہیں۔ پاکستان، اپنی بے پناہ قربانیوں کے باوجود، معاشی اور سفارتی سطح پر مسلسل مشکلات کا شکار رہا ہے، جبکہ خطے کے دیگر ممالک کو ترجیحی سلوک اور اقتصادی مواقع ملتے رہے۔
علاوہ ازیں، امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک مفادات کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، جب ضرورت پڑی، تب تعلقات مضبوط کیے اور جب مقاصد پورے ہو گئے، تو لاتعلقی اختیار کر لی۔ سرد جنگ کے دوران، پاکستان نے سوویت اثر و رسوخ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی بنا۔ تاہم، واشنگٹن کا رویہ اکثر مفاد پرستانہ رہا، جس کے باعث پاکستان کو طویل المدتی نتائج بھگتنا پڑے۔ یہ رجحان اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک خودمختار خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے تاکہ اس کی قربانیاں دیرپا قومی فوائد میں تبدیل ہو سکیں، نہ کہ عارضی اتحادوں میں جو بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی نے بین الاقوامی سطح پر جزوی طور پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ حال ہی میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے تعاون کو عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ اسی طرح، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ سوویت افواج کو شکست دینے میں پاکستان کی مدد لینے کے بعد، امریکہ نے اسے تنہا چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں شدت پسند گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔
میدان جنگ میں، پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بڑے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہیں، جس کے نتیجے میں حملوں کی شدت اور تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ فوجی آپریشنز، جیسے کہ ضربِ عضب اور ردالفساد، نے ان علاقوں میں امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو پہلے شدت پسندی کا مرکز تھے۔ پاکستانی عوام کی استقامت اور محافظوں کی قربانیوں نے ملک کو انتہا پسندی کے آگے جھکنے نہیں دیا۔
پاکستان کی وسیع پیمانے پر انسداد دہشت گردی کی مہارت نے اسے عالمی سلامتی کے مباحثوں میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، جو پاکستان کو انسداد دہشت گردی تعاون میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ سفارتی کوششیں، جیسے کہ پاکستان-افغانستان امن عمل اور علاقائی استحکام کے اقدامات، اس کے دیرپا امن کے عزم کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔
جیسا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی طویل جدوجہد کے اثرات کا تجزیہ کر رہا ہے، اسے اپنی قربانیوں اور کامیابیوں دونوں پر غور کرنا ہوگا۔ قوم نے گہرے انسانی اور اقتصادی نقصانات برداشت کیے ہیں، سفارتی چیلنجز کا سامنا کیا ہے، اور عالمی سطح پر ایک مسخ شدہ بیانیے سے دوچار رہی ہے۔ پھر بھی، اس کی قربانیاں مکمل طور پر رائیگاں نہیں گئیں۔ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی، سیکیورٹی اداروں کی مضبوطی، اور اس کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا بڑھتا ہوا اعتراف قابل ذکر کامیابیاں ہیں۔
مستقبل کے لیے، پاکستان کو اقتصادی بحالی، اسٹریٹجک علاقائی سفارت کاری، اور فعال عالمی شمولیت کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس کی قربانیوں کو اقتصادی شراکت داری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور بین الاقوامی فورمز میں منصفانہ سلوک کے ذریعے ٹھوس فوائد میں تبدیل ہونا چاہیے۔ صرف دانشمندانہ پالیسی سازی اور متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی پاکستان یہ یقینی بنا سکتا ہے کہ اس کی استقامت دیرپا فوائد میں ڈھلے، اور قوم ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہو۔