پاکستان

اقوام متحدہ کی فلسطین کانفرنس میں پاکستان کا بھرپور مؤقف، مکمل رکنیت کا مطالبہ

نیویارک، یورپ ٹوڈے: نیویارک میں اقوام متحدہ کی زیرِ سرپرستی فلسطین کے مسئلے پر منعقدہ عالمی کانفرنس میں پاکستان نے فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت فلسطین کو دینے کا پُرزور مطالبہ کیا۔

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی ناگزیر ہے، انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور جنگی جرائم کے مرتکب عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ میزبانی میں منعقدہ اس اہم کانفرنس میں اسحاق ڈار نے فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرے اور دیرینہ تنازع کے حل کی جانب عملی قدم بڑھائے۔

انہوں نے غزہ میں جاری قتل عام کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین گزشتہ 75 برسوں سے عالمی ضمیر کا امتحان ہے اور اس کا تاحال حل نہ ہونا اقوام عالم کی اجتماعی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

اسحاق ڈار نے زور دیا کہ اقوام متحدہ فلسطینی ریاست کو مکمل رکنیت دے تاکہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل کی راہ ہموار ہو سکے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے جائز حقوق، آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنی سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افتتاحی خطاب میں دو ریاستی حل کو واحد قابلِ عمل راستہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی ناقابلِ برداشت ہے اور اس کے لیے کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔

فرانس کے وزیر خارجہ ژان نول باروٹ نے بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ پورے خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب امریکا اور اسرائیل نے اس عالمی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے دعویٰ کیا کہ یہ کانفرنس غیر موزوں وقت پر بلائی گئی ہے اور یہ امن عمل میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ گزشتہ سال کیا تھا۔ کانفرنس جون میں منعقد ہونا تھی، تاہم ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

عالمی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس خطے میں قیامِ امن اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی جانب ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتی ہے۔

رومانیہ Previous post رومانیہ کے سفیر کا این ڈی ایم اے کا دورہ، آفات سے نمٹنے میں تعاون کے لیے ایم او یو کی تجویز
پزشکیان Next post فرانسیسی سفیر سے ملاقات، ایران مکالمے کا حامی لیکن جارحیت پر فیصلہ کن جواب دے گا، صدر پزشکیان