
اقوام متحدہ میں پاکستان کی اسرائیلی منصوبے کی شدید مذمت، سلامتی کونسل سے فوری عملی اقدامات کا مطالبہ
نیویارک، یورپ ٹوڈے: پاکستان نے غزہ پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محصور فلسطینیوں کو بچانے کے لیے فوری نفاذی اقدامات کرے، جن میں ایک بین الاقوامی حفاظتی فورس کی تعیناتی بھی شامل ہے، تاکہ اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے، سفیر عاصم افتخار احمد نے 15 رکنی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ “غزہ کو بقیہ مقبوضہ فلسطینی علاقے سے کاٹنے کی کسی بھی کوشش کا مطلب دو ریاستی حل کے بنیادی نظریے پر براہِ راست حملہ ہے۔” انہوں نے زور دے کر کہا کہ “غزہ، ریاستِ فلسطین کا اٹوٹ حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔”
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور ان کے حقوق کے لیے عالمی آواز بالآخر ظلم پر غالب آئے گی، اور یہ کہ فلسطینی عوام کے مستقبل اور حکمرانی کے فیصلے صرف اور صرف وہ خود کریں گے۔ انہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ “اس سانحے کی جڑ اسرائیل کا طویل، غیرقانونی قبضہ ہے” اور کہا کہ سلامتی کونسل کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت اسرائیل کو غزہ پر قبضے کے منصوبے سے باز رہنے کا حکم دینا چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ منصوبہ فلسطینی وجود مٹانے، امن کے امکانات ختم کرنے اور تنازع کے پرامن حل کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ نسلی تطہیر کی مہم کی انتہا ہے۔ یہ اقدام سلامتی کونسل کی تمام قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، جس سے لاکھوں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر جبری بے دخلی کا خطرہ ہے، جو چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔
سفیر عاصم افتخار کے مطابق، اسرائیل کا طرزِعمل ایک واضح نمونہ پیش کرتا ہے: “مسلسل بمباری، ہزاروں افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونا، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، انسانی امدادی نظام کا خاتمہ، بھوک اور جبری ہجرت — اور بالآخر ‘سیکورٹی’ کے بہانے قبضہ۔” انہوں نے کہا کہ جو ممالک اسرائیل کو سیاسی، عسکری یا سفارتی تحفظ فراہم کر رہے ہیں وہ بھی اس جرم میں شریک ہیں اور تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ:
— فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی؛
— تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ؛
— نقل مکانی اور جارحیت کا مکمل خاتمہ؛
— بڑی پیمانے پر، بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی؛ اور
— یروشلم کے مقدس مقامات کی قانونی و تاریخی حیثیت کے تحفظ کی یقینی ضمانت دے۔
سفیر نے زور دیا کہ اگر اسرائیل نے سلامتی کونسل اور عالمی برادری کے مطالبات کو نظرانداز کیا تو اسے اس کی قیمت چکانی ہوگی۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی، القدس شریف کو دارالحکومت بنانے والی ایک آزاد اور قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے آغاز میں اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے یورپ، وسطی ایشیا اور امریکہ، میروسلاو جینچا نے خبردار کیا کہ اسرائیلی حکومت کا تازہ فیصلہ اس تنازع کو ایک اور بھیانک مرحلے میں داخل کر سکتا ہے، جس کے خطے اور اس سے باہر سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ منصوبہ غزہ شہر سے 8 لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، تین ماہ تک شہر کا محاصرہ، اور اس کے بعد وسطی غزہ کے کیمپوں پر قبضے اور فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے خاتمے پر مشتمل ہے۔ جینچا نے کہا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد ایک نئی تباہی، مزید قتل و غارت، تباہی اور جبری ہجرت کو جنم دے گا اور موجودہ انسانی بحران کو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھا دے گا۔
انہوں نے فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون کی مکمل پاسداری کا مطالبہ کیا۔