
پاکستان کا بھارت کے بے بنیاد الزامات پر شدید ردعمل، حقائق مسخ کرنے کی کوشش مسترد
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: پاکستان نے جمعہ کے روز بھارت کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے حوالے سے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی کے الزامات “بے بنیاد، بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن مہم کا حصہ” ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ، سفیر طاہر اندرابی نے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے صدر ٹرمپ کے جوہری تجربات سے متعلق تبصرے کو پاکستان سے جوڑنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے واضح طور پر امریکی صدر کے الفاظ کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا، “امریکی فریق نے پہلے ہی میڈیا کو صدر کے بیان کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے آخری جوہری تجربات مئی 1998 میں کیے گئے تھے، اور اس حوالے سے ہمارا مؤقف ہمیشہ واضح اور مستقل رہا ہے۔”
ترجمان نے اس موقع پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جوہری تجربات پر جامع پابندی کی قراردادوں کی پاکستان کی حمایت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اس کے برعکس بھارت نے بارہا ان قراردادوں پر ووٹنگ سے اجتناب کر کے اپنے “مبہم اور مشکوک عزائم” کا ثبوت دیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے جوہری سلامتی اور عدمِ پھیلاؤ کے بے داغ ریکارڈ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام ایک “مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام” کے تحت کام کرتا ہے، جس میں برآمدات پر جامع کنٹرول موجود ہے۔
اندرابی نے کہا، “خفیہ یا غیر قانونی جوہری سرگرمیوں کے الزامات سراسر من گھڑت ہیں۔ یہ بھارت کی دانستہ کوشش ہے کہ وہ اپنے غیر ذمہ دارانہ جوہری رویے سے بین الاقوامی توجہ ہٹائے۔”
انہوں نے بھارت کے تشویشناک ریکارڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی چوری اور غیر قانونی اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ “گزشتہ سال ہی بھارت کے بھابھا ایٹامک ریسرچ سینٹر (BARC) سے انتہائی تابکار مادہ ‘کلیفورنیم’ سمیت جوہری آلات، جن کی مالیت 100 ملین امریکی ڈالر سے زائد تھی، فروخت کے لیے پیش کیے گئے تھے۔”
ترجمان نے خبردار کیا کہ ایسے واقعات “بھارت کی جوہری تنصیبات کے تحفظ میں سنگین خامیوں” کو بے نقاب کرتے ہیں اور ملک میں “ایک فعال جوہری بلیک مارکیٹ” کے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی میں موجود ان “خطرناک خامیوں” کا سنجیدگی سے نوٹس لے، جو علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔