
پاکستان کا سلامتی کونسل سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ، یورپ ٹوڈے: پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل کے لیے فعال کردار ادا کرے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ پاکستان نے خبردار کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اس دیرینہ مسئلے کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی خصوصی سیاسی و نوآبادیاتی کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ “پُرامن اور تعمیری” تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن امن ناانصافی اور بنیادی حقوق کی نفی پر قائم نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا، “بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ختم کرنا ہوں گی اور 5 اگست 2019 کے بعد کیے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو فوری طور پر واپس لینا ہوگا۔” یہ حوالہ بھارت کے اس اقدام کی طرف تھا جس کے تحت اس نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔
عاصم افتخار احمد نے نشاندہی کی کہ اگرچہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے سے متعلق تاریخی اعلامیہ تمام اقوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے، لیکن فلسطین اور کشمیر کے عوام اب بھی اس ناقابلِ تنسیخ حق سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا، “فلسطین کا المیہ عالمی نظام اور اقوام متحدہ کی ساکھ پر ایک گہرا سایہ ڈال رہا ہے۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔” سفیر نے کہا کہ “فلسطینی عوام نسل در نسل قبضے، بے دخلی، محاصرے اور تشدد کے تسلسل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا تازہ باب گزشتہ دو برسوں سے جاری غزہ کی تباہی ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام کو حقِ خودارادیت دیا جائے اور 1967 سے قبل کی سرحدوں پر ایک آزاد، خودمختار اور متصل ریاستِ فلسطین قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
سفیر عاصم احمد نے کہا، “قبضے کا خاتمہ ناگزیر ہے کیونکہ یہی علاقائی عدم استحکام کی اصل جڑ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے صدر کی عرب اور او آئی سی رہنماؤں سے حالیہ مشاورت اور ایک مجوزہ منصوبے کا اعلان اہم پیش رفت ہیں، جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان نے امید ظاہر کی کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا تعطل رسائی، اور فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل جلد شروع ہوگا۔
بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں حقِ خودارادیت سے انکار پر بات کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود قدیم ترین حل طلب مسائل میں سے ایک ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا، جس میں کشمیری عوام کی مرضی کو بنیاد بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا، “بھارت اور پاکستان دونوں نے ان قراردادوں سے اتفاق کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت ان قراردادوں پر عمل درآمد لازمی ہے۔”
عاصم احمد نے کہا کہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے بھارت ان وعدوں سے راہِ فرار اختیار کرتا آ رہا ہے اور ریاستی جبر، فریب اور طاقت کے ذریعے اپنے تسلط کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا، “کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکریت زدہ علاقہ بن چکا ہے، جہاں 9 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ اس فوجی قبضے نے ظلم و ستم کا ایک سلسلہ برپا کر رکھا ہے، جس میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد، غیر قانونی گرفتاریوں اور اجتماعی سزاؤں جیسے اقدامات شامل ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “2019 سے کشمیری قیادت کو قید کر دیا گیا ہے، جن میں سے کئی رہنما دورانِ حراست جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس جبر کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کر چکے ہیں۔”
سفیر نے بھارت کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی، جن کے تحت لاکھوں غیر مقامی افراد کو غیر قانونی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں اور کشمیری زمینوں و املاک کو فوجی اور سرکاری استعمال کے لیے ضبط کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، “یہ اقدام واضح طور پر مسلم اکثریتی خطے کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی ایک منظم کوشش ہے، جو انتہا پسند ‘ہندوتوا’ نظریے سے متاثر ہے، جو مذہبی بالادستی اور اقلیتوں کے استحصال کو فروغ دیتا ہے۔”
آخر میں سفیر عاصم احمد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے نامکمل نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا، کیونکہ اقوام متحدہ کی ساکھ اس کے وعدوں کی تکمیل پر منحصر ہے۔