عشق اور میر تقی میرؔ
تجزیہ کار اور ماہر خصوصًا وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، چین، ترکی اور مشرق وسطیٰ۔ مضمون نگاری کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایک ادیب اور شاعر ہیں۔
قبل اس کے کہ میرؔ کی شاعری میں عشق و حسن کا جائزہ لیں ضروری ہے کہ میرؔ کی زندگی کے نشیب و فراز پر طائرآنہ نظر ڈالیں تاکہ ان کے شاعری میں عشق کی بہتات اور حسن کے اذکار کی وجوہات کا اندازہ ہوسکے ۔ میر تقی میر ؔ 1722 ء میں اکبرآباد میں پیدا ہوئے ان کے والد محمد علی اپنے زہد و تقویٰ کے باعث متقی کی نام سے مشہور ہوئے ۔ اُن کی پہلی شادی ممتاز شاعر سراج الدین علی خان آرزوؔ کی بڑی بہن سے ہوئی جن کے بط سے حافظ محمد حسن پیدا ہوئے دوسری بیوی کو تین اولادیں ہوئیں ۔ میر تقی اور محمد رضی کے علاوہ ایک لڑکی تھی ۔ میرؔ گیارہ برس ہی کے تھے کہ ان کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ محمد علی متقی نے اپنے بیٹے میر تقی سے کہا تھا کہ ’’ بیٹے عشق اختیار کرکہ دنیا کے اس کارخانہ میں اس کا تصرف ہے اگر عشق نہ ہوتو نظم کل کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی۔عشق کے بغیر زندگی وبال ہے دل باختہ عشق ہونا کمال کی علامت ہے سوز و ساز دونوں عشق سے ہیں عالم میں جو کچھ ہے وہ عشق ہی کا ظہور ہے ‘‘۔اس نصیحت کا اثر تھا کہ میرؔ نے زندگی اور اس کی حقیقت عشق اور معاشرے کی سچائیوں کو دیکھا ، رشتوں کا سراغ لگایا اور یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس نے میرؔ کو ایک بہترین شاعر بنادیا ۔ اپنی معروف مثنوی معاملات عشق میں میرؔ نے عشق کی بات کہی:
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو ، کہیں ہے کچھ
اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کی پہلی شرط عشق ہے اگر عشق نہیں ہے خلوص اور لگن نہیں ہے تو ناکامی مقدر بن جاتی ہے اور عشق کے بغیر نہ دین میں کامیابی ہے اور نہ دنیا میں کامرانی ۔ ایک اور مثنوی دریائے عشق میں انہوں نے کہا کہ:
عشق ہے تازہ کار تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
میرؔ نے اس شعر میں عشق کو رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہتے ہیں کہ اس کے افکار و ادراک لاوسعت ہے ہر دم یہ نئی نئی راہوں سے روشناس کرواتا ہے ۔ مثنوی شعلہ شوق میں وہ کہتے ہیں :
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
مندرجہ بالا دو شعروں میں میرؔ نے محبت اور عشق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچی لگن اور جستجو نے آندھیوں میں چراغ جلائے ہیں اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو ہر سمت تاریکی چھائی رہتی انسان کا ہر عمل عشق و محبت کا محتاج ہے اگر یہ صفت نہ ہوتو پھر آدمی کسی کام کا نہیں ہے۔
عشق میرؔ کی شاعری کی روح ہے اسی سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہے اس ایک موضؤع نے انہیں عظیم شاعر بنادیا ہے ۔ میرؔ کی شاعری کو ہم اس لئے بھی عشقیہ شاعری کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مقامیت بھی ہے اور آفاقیت بھی تاحال میرؔ کا رنگ کسی اور شاعر میں نہ مل سکا چند ایک نے ان کی پیروی کی کوشش کی مگر ناکامی ان کے ہاتھ لگی ۔ میرؔ کی شاعری کا مخزن ان کا عشق اور اس سے پیدا ہونے والا جنون ہے جو نوجوانی میں ان پر سوار ہوا اور جس کا ذکر مثنوی ‘‘ خواب و خیال ‘‘ میں انہوں نے خود کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اپنے شہر میں ایک پری بے مثال ان کی عزیر تھی وہ درد پردہ اس سے عشق کیا کرتے تھے ۔ اگرچہ ان کی شاعر میں جگہ جگہ غم ویاس فکر و افسردگی نمایاں ہے لیکن عشق تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا ۔ غم روزگار سے و وہ ہمیشہ دوچار رہے جب غم جاناں بھی اس میں شامل ہوا تو ان کی شاعری لافانی بنی ۔ میرؔ ایک جگہ کہتے ہیں :
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں پھر رہا ہے عشق
میر تقی میرؔ کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں عشق کا بول بالا ہے یہ دنیا اس کے قدموں میں ہے جو عشق میں مبتلا ہے ہر نفس اس جذبہ سے سرشار ہے اگر یہ جذبہ کارفرمانہ ہوتو پھر دنیا کا حصول ممکن نہیں ہے زندگی میں کوئی مزہ ہی نہیں شائد یہی وجہ ہے کہ عشق ساری کائنات میں دندناتا ہوا پھر رہا ہے ۔ میرؔ نے عشق کی کیفیت کو کچھ اس طرح بھی بیان کیا ہے:
عشق معشوق ہے عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
ایک ہی مصرعہ میں عشق عاشق اور معشوق کا اس طرح خوبصورتی سے استعمال شائد ہی اردو کے کسی اور شاعر نے کیا ہو ۔ اس شعر میں میرؔ کہتے ہیں کہ عشق ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں عشق خود ہی فعل ہے فاعل ہے اور مفعول بھی ۔اگلے شعر میں میرعشق سے متعلق کچھ اس طرح اپنا خیال ظاہر کرتے ہیں
کوہکن کیا پہاڑ ، توڑے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
اس شعر میں وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ کسی کی کیا مجال کہ کوئی مشکل اور مشقت سے بھرا کام کر گذرے اگر عشق شامل حال نہ ہو یہاں اُس سے اِس کی لگن اور جستجو ہی وہ کام کرواتی ہے اور یہی عشق ہے ورنہ پہاڑوں کا سینہ چیرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
اسی غزل کے ایک اور شعر میں میرؔ کہتے ہیں
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
میرؔ کہتے ہیں کہ عشق محبت اور پیار ، جفاکش اور دل والوں کا کام ہے یہ اتنا سہل نہیں جیسا کہ دکھائی دیتا ہے اس کام کیلئے کافی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے ،میرؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری خود بہ خودان کی شاعرانہ عظمت کا معترف ہوجاتا ہے میر تقی میر ؔ کی شاعری کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد یہ چند شعر آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے اگر میرؔ کی تفصیلی شاعری اور ان میں عشق کے تذکرہ کا مکمل احاطہ کیا جاتا تو یہ صفحات بالکل بھی ناکافی ہوتے اسی لئے اختصار سے کام لیتے ہوئے میں اپنے مضمون کو یہیں ختم کرتا ہوں۔