اکادمی ادبیات پاکستان میں خصوصی افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے جناب امین کنجاہی کے اعزاز میں تقریب
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیرِ اہتمام خصوصی افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے شاعر، ادیب اور کالم نگار جناب امین کنجاہی کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس میں متعدد اہلِ قلم شریک ہُوئے۔ اکادمی کی صدر نشیں ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈائریکٹر جنرل جناب سلطان ناصر بھی موجود تھے۔ جناب مسعود اقبال ہاشمی نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے امین کنجاہی کو خراجِ تحسین پیش کیا جو زندگی کی ابتدا ہی میں ایک حادثے سے دو چار ہوگئے لیکن انھوں نے زندگی کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے احباب و اہل خانہ کے لیے بھی مفید و بامعنی بنایا۔ اس کےعلاوہ انھوں نے سماجی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے ادارہ بھی قائم کیا۔ بلاشبہ ان کی زندگی کا یہ سفر جہدِ مسلسل سے عبارت رہا۔ ایسی شخصیات ابتدائی حادثوں کو اپنی قوت بناتے ہوئے زندگی کو کامیاب اور خوشگوار بناتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خدا جب کسی انسان میں بظاہر ایک کمی پیدا کرتا ہے تو اس پر کسی دوسرے ذریعے سے خصوصی نوازش بھی کرتا ہے۔ امیں کنجاہی پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ ان کی معزوری ایک طاقت بنی جو ان کے اندر کی تخلیقی اور اخلاقی صلاحیت کو تقویت دیتی ہے۔ امین کنجاہی نے نظم، عزل، افسانے اور کالم لکھے ہیں۔ اردو اور پنجابی میں ان کی7 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔
جناب امین کنجاہی نے اپنی ابتدائی زندگی کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اصل نام آصف امین منہاس کنجاہی ہے۔ وہ 1961 میں گجرات کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1964 میں والد کی راولپنڈی ٹرانسفر ہوئی تو وہ سینٹ پال کیمرج سکول راولپنڈی میں داخل ہُوئے۔ پانچویں جماعت میں تھے کہ پتنگ بازی کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث 10 سال تک بستر پر رہے۔ یہ نہایت تکلیف دہ اور صبر آزما وقت تھا۔ اس کے بعد وہ پہیہ کُرسی (وہیل چیئر) اور پھر ایک علاج کے ذریعے بیساکھیوں کے سہارے چلنے لگے۔ اسی دوران میں وہ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامز دلچسپی سے دیکھتے رہتے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے ریڈیو اور ٹی وی سے بہت کچھ سیکھا۔ انھیں کرکٹ سے بھی والہانہ شوق تھا۔ اگر انھیں معذوری لاحق نہ ہوتی تو وہ یقیناً قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کی کوشش کرتے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے 1984 میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے میٹرک، پھر ایف اے اور پھر بی اے کیا۔ پھر 1990 میں پرائیویٹ طور پر تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ جب انھیں بطور کلرک سرکاری نوکری ملی تو یہ اُن کے لیے بے حد طمانیت کی بات تھی کہ وہ خود بھی اپنے لیے کما سکتے ہیں۔ جناب امین کنجاہی نے کہا کہ ان کی شاعری، افسانوں، کالموں اور سفر نامے پر مشتمل 7 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی کام کرتے رہے۔ نھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی ایک ادبی و ثقافتی تنظیم “فن کدہ” ہے جس کا مقصد نوجوان تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے زمانے میں سینئرز خاصی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اسی لیے اُنھوں نے یہ ادارہ بنایا کہ جونیئرز کو موقع میسر آئے۔ انھوں نے خصوصی طور پر اپنی اہلیہ کا شکریہ ادا کہ ان کی محبت اور مکمل تعاون کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ معاشرے میں کامیاب انسان کے طور پر ابھر سکیں۔ ان کی اہلیہ نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ اُن کی صاحبزادی خدیجہ امین نے ان کی شفقت اور محبت کا ذکر کیا۔ جناب امین کنجاہی نے خصوصی طور پر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کرائی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 42 سال سے علم و ادب سے وابستہ ہیں مگر اِس سے پہلے کسی قومی ادارے نے ان کی ایسی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ انھوں تمام شرکا اور احباب کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر معروف شاعر جناب حسن عباس رضا، جناب وفا چشتی، جناب شاہد مسعود، ڈاکٹر حسن یاسر ملک، جناب انعام محمد، اور محترمہ ماریہ سعید قریشی نے جناب امین کنجاہی کی محنت، حوصلے اور تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ جناب امین کنجاہی کو خصوصی طور پر پھول پیش کیے گئے۔ آخر میں جناب امین کنجاہی نے اپنی شاعری سے حاضرینِ محفل کو محظوظ کیا اور داد سمیٹی۔ تقریب میں شرکت کرنے والوں میں محترمہ فریدہ حفیظ، محترمہ افشاں عباسی، جناب حسن عباس رضا، ڈاکثر انعام محمد، جناب پناہ بلوچ، جناب سلیم اختر، ڈاکثر حسن یاسر، جناب ساجد علی، سید مکرم علی، محترمہ ماریہ سعید، جناب داؤد کیف، جناب تنزیل احمد، جناب ماجد قریشی، جناب تجمل شاہ، محترمہ منیرہ شمیم، جناب وفا چشتی، محترمہ سعدیہ آفتاب (بنتِ آفتاب اقبال شمیم)، جناب افتاب عالم، محترمہ خدیجہ امین (بنتِ امین کنجاہی) اور جناب امین کنجاہی کی اہلیہ و دیگر شامل تھے۔