پاکستان

اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے اقامتی منصوبے کا اختتامی اجلاس، نوجوان اہلِ قلم کی تخلیقات کی نمائش اور اظہارِ خیالات

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام نوجوان اہلِ قلم کے لیے دس روزہ بینُ الصوبائی اقامتی منصوبے کا اختتامی اجلاس 24 جنوری 2025 کی صبح ایک پُروقار تقریب کی صورت میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت معروف فکشن نگار جناب محمد الیاس نے کی۔ مہمانانِ خصوصی محترمہ فریدہ حفیظ، جناب حسن عباس رضا، اور جناب امداد آکاش تھے۔ مہمانانِ اعزاز جناب قیوم طاہر اور جناب رفیق سندیلوی تھے۔ جناب رحمان حفیظ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اکادمی کے ناظمِ اعلیٰ جناب سلطان ناصر نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے حاضرین کو خوش آمدید کہا اور اقامتی منصوبے کی کامیاب تکمیل پر اکادمی ادبیات میں ڈاکٹر نجیبہ عارف کی زیرِ قیادت خدمات سرانجام دینے والے سب رفقائے کار کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے اِس اقامتی منصوبے کو “جشنِ تنوع (Celebration of Diversity)” کا نام دیا اور کہا کہ پاکستان میں ثقافتی ثروت مندی اِس قابل ہے کہ اس کا جشن منایا جائے۔اقامتی منصوبے میں شریک اہلِ قلم نے حسبِ ضابطہ اختتامی اجلاس میں اپنی وہ تخلیقات پیش کیں جو انھوں نے اِسی اقامت کے دوران میں تحریر کی تھیں۔

اکثر اہلِ قلم نے اپنی اپنی مادری زبانوں مثلاً پشتو، سندھی، براہوی، شنا، اور بلوچی وغیرہ میں اپنی تخلیقات پیش کیں اور خوب داد سمیٹی۔ دیگر اہلِ قلم نے اُردو تخلیقات پیش کیں۔ کوہستان (خیبرپختونخواہ) سے آئے مہمان جناب محمد ولی صادق کی اردو غزل نے سب سے بڑھ کر داد سمیٹی۔ جناب ضیا المصطفی نے نظم پیش کی. جناب حفیظ تبسم نے ایک خط عبداللہ حسین کے نام پیش کیا۔ جناب کاشف ناصر نے انگریزی تحریر سے اقتباس پیش کیا۔ ڈاکٹر ثناور اقبال نے اپنے ناول کے حوالے سے گفتگو کی۔ جناب نعیم یاد نے رائٹر ہاؤس میں دس دن کے حوالے سے تحریر سنائی۔ جناب آصف شاہ نے اردو شعر سنائے اور خوب داد سمیٹی۔ جناب قیس رضا نے اپنی اردو غزل پیش کی۔ جناب مسلم انصاری نے “خواہش نامہ” کے عنوان سے مختصر تحریریں پیش کی۔ جناب ندیم گلانی نے اردو اشعار پیش کیے۔ جناب منظور جویو نے سندھی غزل اور اردو میں اس کا ترجمہ پیش کیا۔ جناب اسحاق رحیم نے بلوچی شاعری سنائی۔ جناب ذاکر قادر نے اپنے بلوچی افسانے کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ جناب مہر زاہد نالوی نے براہوی زبان میں اپنا کلام پیش کیا۔ محترمہ ارم جعفر نے گلگت بلتستان کے حوالے سے تخیلات پیش کیے۔ ڈاکٹر ثناور اقبال نے پنجابی تخلیقات پیش کیں۔ جناب طفیل عباس نے شنا زبان میں اپنی نظم سنائی۔ محترمہ ارم امتیاز نے پشتو شاعری پیش کی۔ جناب مستفظ الرحمن نے اپنا اُردو کلام پیش کیا۔

صدر محفل جناب محمد الیاس جو تقریبات سے گریزاں رہتے ہیں، نے کہا کہ مضافات سے آئے اِن خالص لکھاریوں کی محبت ہی مجھے کھینچ لائی ہے۔ انھوں نے نوجوان اہل قلم پر زور دیا کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سچ کا ساتھ دینے اور استحصال کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے استعمال کریں۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ دیانتدار رہنے کی نصیحت کی کہ یہ ایک قرض ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ زبان، مسلک، صوبے، نسل، ذات وغیرہ کے نام پر کسی قسم کی تفرقہ بازی کا حصہ نہ بنیں اور سماج کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے اکادمی کے شاندار اقامتی منصوبے کو سراہا اور صدر نشین اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف، صدر نشین اکادمی نے سپاس نامے کی صورت میں الوداعی خطاب کیا۔ انھوں نے صدرِ مجلس، مہمانانِ خصوصی اور مہمانانِ اعزاز کے ساتھ ساتھ راولپنڈی اسلام آباد کے معروف اہل قلم کے اور بیرونِ ملک سے تشریف لائے جناب خالد عباس (مدینہ منورہ) اور جناب سرفراز بیگ (پیرس) کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ اُن کے نزدیک تعداد اور مقدار سے زیادہ معیار کی اہمیت ہے۔ اختتامی اجلاس میں جس معیار کے اہلِ قلم تشریف لائے ہیں یہ اکادمی کے لیے بے حد اعزاز کی بات ہے۔

انھیں نے کہا کہ اکادمی بے روح ہجوم اکٹھا کرنے کی بجائے ادب سے وابستہ خالص لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جڑواں شہروں کے اہلِ قلم نے جس فراخ دلی اور کھلے دل سے اقامتی منصوبے کے شرکا کا استقبال کیا اور اور تقریبات میں شامل ہوئے وہ نہایت لائقِ تحسین ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ اقامتی منصوبے کے ان دس دنوں میں ہمارے نوجوان اہل قلم نے جس نظم و ضبط، رواداری، اعلی اخلاقی اقدار اور شائستگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اقامتی منصوبے کے شرکا سے مخاطب ہو کر تخلیقی ادب کے مختلف پہلوؤں پر روشی ڈالی۔ انھون نے کہا کہ “عظمت” اور “شہرت” دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مشہور ادیب، عظیم ادیب بھی ہو۔ انھوں نے کہا کہ بڑا ادب اپنے ذات کی پہنائیوں میں اُتر کر خلوت اور خاموشی میں تخلیق پاتا ہے۔ تاہم صرف ذات کی گہرائیاں ہی کافی نہیں بلکہ بڑے ادب کو اپنے ماحول اور سماج کے متعلق بھی حساس ہونا ہوتا ہے۔ وہ انسان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ شہرت عارضی ہوتی ہے، جب کہ عظمت ہمیشہ رہتی ہے۔ انھوں نے پاکستانی زبانوں کے ساتھ ساتھ قومی زبان اردو زبان کی اہمیت اور افادیت پر گفتگو کی جو نہ صرف ملک بھر میں رابطے کی زبان ہے بلکہ اعلیٰ ادبی ورثہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

محترمہ فریدہ حفیظ، جناب حسن عباس رضا، جناب امداد آکاش، جناب قیوم طاہر اور جناب رفیق سندیلوی نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور اکادمی کے زہر اہتمام اقامتی منصوبے کو سراہتے ہوئے اور اسے مضافاتی ادب کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے احسن قدم قرادیا۔ اجلاس میں جناب عبد الخالق تاج، محترمہ فاطمہ نعیم علوی، جناب محبوب ظفر، ڈاکٹر وحید احمد، جناب عرش ہاشمی، محترمہ سبین ہونس، محترمہ فرحین چوہدری، ڈاکٹر امینہ بی بی، جناب جعفر جٹیانہ، جناب امجد ہرل، جناب محمد وسیم فقیر ودیگر نے شرکت کی۔ آخر میں اقامتی منصونے کے انیس کامیاب شرکا میں اسناد تقسیم کی گئیں۔ ایک خصوصی سند جناب زاہد گلزار کو بھی دی گئی جنھوں نے اکادمی کی طرف سے شرکا کے دس روزہ قیام و طعام کی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھایا۔

سینیٹ Previous post فرانسیسی سینیٹ نے 2025 کے ریاستی بجٹ بل کی منظوری دے دی
شی جن پنگ Next post چینی صدر شی جن پنگ کی بہار میلے کی مبارکباد، پیپلز لبریشن آرمی شمالی تھیٹر کمانڈ کے دورے کے دوران اہلکاروں سے ملاقات