پاکستان کا جوابی وار اور اسلحہ کی عالمی منڈی

پاکستان کا جوابی وار اور اسلحہ کی عالمی منڈی

انسانی تاریخ کے اوراق پر لڑی جانے والی جنگوں کی فہرست طویل بھی ہے اور الم ناک بھی۔ کچھ جنگیں حقیقی تنازعات اور سیاسی اختلافات سے جنم لیتی ہیں، جب کہ بعض جنگیں ایسے بنائے گئے بہانوں اور گھڑی ہوئی کہانیوں کے ذریعے شروع کی جاتی ہیں، جو جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ طاقتور اقوام نے جنگوں کے لیے خود ساختہ اسباب تراشنے کا ہنر سیکھ لیا ہے تاکہ اپنے تزویراتی یا معاشی مقاصد حاصل کر سکیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تصادم بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ جنگ نہ دہلی میں لکھی گئی، نہ اسلام آباد میں۔ اس کا خمیر اُن ایوانوں میں اٹھا، جہاں اصل منصوبہ ساز بیٹھے ہیں، اور جن کے مفادات جنوبی ایشیا سے کہیں آگے پھیلے ہوئے ہیں۔ حالیہ جنگ اگرچہ سرحد پر شروع ہوئی، لیکن اس کی منصوبہ بندی ان کمروں میں ہوئی جہاں نہ انسانی جانوں کی قیمت ہے نہ خطے کے امن کی۔

بھارت نے ایک بار پھر خوشی خوشی آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ پاکستان پر برتری کے زعم اور فوری فتح کی جھوٹی امید لے کر حملہ کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی جڑیں کشمیر یا لائن آف کنٹرول پر نہیں، بلکہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے ہوتے تعلقات میں تلاش کی جانی چاہئیں۔ برسوں سے سی پیک جیسے منصوبے نے عالمی طاقتوں، خاص طور پر ان ممالک کو پریشان کر رکھا ہے جو چھوٹے ملکوں کے عسکری و معاشی فیصلوں پر اپنی اجارہ داری رکھتے تھے۔ جب پاکستان اور چین نے عسکری ٹیکنالوجی اور دفاعی سازوسامان میں اشتراک کا آغاز کیا تو عالمی اسلحہ منڈی کے ان پرانے بیوپاریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

وہ اجارہ داری، جو مغربی ممالک کو ہر سال اربوں ڈالر کا منافع دیتی تھی، اب چین کی جدید اور سستی ٹیکنالوجی کے باعث متزلزل ہو رہی تھی۔ چین نے ایسی متبادل راہیں فراہم کیں جو نہ صرف مؤثر بلکہ پُراعتماد اور معاشی طور پر پائیدار تھیں۔ یہ چیلنج ان طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ چنانچہ منصوبہ بنایا گیا کہ چین کی دفاعی صلاحیت کو جانچا جائے، بلکہ ممکن ہو تو اسے شکست دی جائے۔ اور اس مقصد کے لیے سب سے موزوں طریقہ یہی سمجھا گیا کہ اس کے قریبی اتحادی پاکستان کو اُس کے پرانے دشمن بھارت سے لڑا دیا جائے۔ سوچ یہ تھی کہ معاشی مشکلات میں گھرا پاکستان نہ لڑ سکے گا اور اگر لڑے گا تو جلد ہی ہار مان لے گا۔ ایک ایسی جنگ، جو دراصل ذلت آمیز شکست کا تماشا ہو، تاکہ دنیا کو پھر سے دکھایا جا سکے کہ طاقت کا توازن مغرب کے پاس ہے۔

اس عالمی اسلحہ بازار کے بڑے کردار سب کے سامنے ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ بیچنے والا ملک ہے، جو عالمی ہتھیاروں کی تجارت کا 40 فیصد سے زائد حصہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس کے بعد روس، فرانس، چین اور جرمنی ہیں۔ اسرائیل، اگرچہ چھوٹا ملک ہے، مگر اپنی جدید الیکٹرانک اور میزائل ٹیکنالوجی کی بدولت غیر معمولی اثر رکھتا ہے۔ یہ سب ممالک مجموعی طور پر ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر کی مارکیٹ پر قابض ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر مرئی قوتیں جو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں، بُری طرح ناکام ہو گئیں۔ دراصل، ان کا اصل مقصد اپنے اپنے عسکری برانڈز کو پروموٹ کرنا تھا اور اس کے لیے ایک جنگ کا آغاز ناگزیر سمجھا گیا۔ ان کے لیے جنگ ایک سانحہ نہیں، بلکہ ایک نمائش تھی—جہاں میدانِ جنگ کو ایک مارکیٹنگ شو روم بنا دیا گیا۔

مگر جو کچھ ہوا، اس نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ پاکستان نہ جھکا، نہ رکا، نہ بکا۔ اس نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے اتحادی چین کے لیے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حکمت، نظم و ضبط، اور ثابت قدمی کے ساتھ اس نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ حملہ جس کا مقصد پاکستان کا حوصلہ توڑنا تھا، اُسی نے اس کا عزم مزید مضبوط کر دیا۔ جواب نہ صرف بروقت تھا، بلکہ انتہائی مربوط اور حیران کن بھی۔ چین کے ساتھ مل کر تیار کردہ ہتھیار اور نظام حیرت انگیز کارکردگی کے ساتھ سامنے آئے۔ جہاں اسرائیلی اور فرانسیسی ٹیکنالوجی ناکام ہوئی، وہاں چینی ساختہ نظام نے اپنا لوہا منوایا۔

یہ جنگ اب محض دو ممالک کا تنازعہ نہ رہی، بلکہ عالمی عسکری برتری کا ایک عملی امتحان بن گئی۔ محض چند گھنٹوں میں میدانِ جنگ ایک ایسی اسٹیج بن گیا جہاں اسلحہ ساز کمپنیوں کی ساکھ تولی گئی۔ جو تماشہ ذلت کے لیے تیار کیا گیا تھا، وہ غیر متوقع فتح میں بدل گیا۔ عالمی تماشائی—جنہوں نے پاکستان کو شکست خوردہ دیکھنے کی امید باندھ رکھی تھی—مجبور ہو گئے کہ مداخلت کریں، اور وہ بھی ترس سے نہیں بلکہ خوف سے۔ منصوبہ پلٹ گیا۔ اگر صدر ٹرمپ نے مداخلت کر کے جنگ رکوا نہ دی ہوتی، تو یہ جنگ اسلحہ کی عالمی منڈی کا توازن مکمل طور پر چین کے حق میں کر دیتی۔ امریکہ صرف سیاسی اثر و رسوخ ہی نہیں، بلکہ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے بھی کھو دیتا۔

اب ایک نئی حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ وہ ممالک جو پہلے امریکی، فرانسیسی یا اسرائیلی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے تھے، اب اپنے فیصلوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایک ایسی جنگ دیکھی جہاں مغرب کی برتری کا دعویٰ ٹوٹ گیا اور پاکستان نے چین کے تعاون سے وہ کارکردگی دکھائی جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ یوں مغربی عسکری ناقابلِ تسخیر ہونے کا افسانہ ٹوٹ چکا ہے—شاید ہمیشہ کے لیے۔

بھارت بھی اب بے نقاب ہو چکا ہے۔ اس کی غلطی نے اسے ساز و سامان، افرادی قوت، حوصلے اور سب سے بڑھ کر ساکھ کے لحاظ سے بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ اور وہ قوتیں جنہوں نے بھارت کو اس دلدل میں دھکیلا، اب ایک بالکل مختلف انجام کا سامنا کر رہی ہیں۔ جس گڑھے میں وہ دوسروں کو گرانا چاہتے تھے، خود اسی میں جا گرے ہیں۔ وہی پرانا قول یاد آتا ہے—”جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے، خود اس میں گرتا ہے۔”

یہ جنگ صرف دو ہمسایوں کے درمیان نہیں تھی۔ یہ جنگ منڈیوں، اثر و رسوخ اور ٹیکنالوجی کی جنگ تھی۔ اگرچہ اس کا دورانیہ مختصر تھا، مگر اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ اس نے ثابت کر دیا کہ سچ کو ہتھیاروں کی طرح بنایا نہیں جا سکتا، اور طاقت کو اسکرپٹ میں نہیں لکھا جا سکتا۔ دنیا نے دیکھا، یہ سمجھتے ہوئے کہ پاکستان پلک جھپکائے گا۔ مگر پاکستان نے نظریں نہیں چرائیں—بلکہ سیدھی رکھیں، اور اسی نے بیانیہ بدل دیا۔

صدر ترکمانستان کی جانب سے ایف سی آرکاداغ کو نقد انعامات سے نوازا گیا Previous post صدر ترکمانستان کی جانب سے ایف سی آرکاداغ کو نقد انعامات سے نوازا گیا
ایران اور ازبکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی ملاقات Next post ایران اور ازبکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی ملاقات