اکادمی ادبیاتِ پاکستان

اسلام آباد: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے اشتراک سے عالمی بیدل سیمینار 2024 کا انعقاد

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے اشتراک سے ادبی تنظیموں’’ہم سخن‘‘ اور ’’اظہار فورم‘‘ کے زیرِ اہتمام عالمی بیدل سیمینار اکادمی کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا، جس میں معروف بیدل شناسوں سمیت فارسی ادب کے شائقین کثیر تعداد میں شریک ہُوئے۔ سیمینار دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کی صدارت کینیڈا سے آئے ہوئے فارسی و اُردو کے محقق ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کی جب کہ فارسی و پشتو کے محقق اور ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی (سربراہ اقبال اکیڈمی) مہمان خصوصی تھے۔ اکادمی ادبیاتِ پاکستان کےڈائریکٹر جنرل جناب سلطان ناصر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر شیر علی، ڈین، الحمداسلامک یونیورسٹی مہمانِ اعزاز تھے۔ ڈاکٹر غازی محمد نعیم، جناب فضل اللہ فانی، ڈاکٹر شوکت محمود، ڈاکٹر محمد آصف رضا اور جناب انعام اللہ رحمانی (افغانستان) نے اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے مقالات پیش کیے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر حمیرا اشفاق اور جناب منظر نقوی نے سر انجام دیے۔ جناب طاہر اسلام عسکری نے تنظیم’’اظہار فورم‘‘ کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور سیمینار کے مرکزی خیال پر روشنی ڈالی۔

اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل جناب سلطان ناصر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہُوئے مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہا۔ انھوں نے برِّصغیر پاک و ہند میں فارسی ادب کی روایت پر سلاطینِ دہلی اور زمانہ مغول (ایران میں دَورِ صفوی) کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے سبکِ ہندی کے حوالے سے عرفی شیرازی اور نظیری نیشاپوری کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اُنھوں نے سترھویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والے پرصغیر پاک و ہند کے تین قادرُ الکلام فارسی شعرا، غنی کشمیری، غنیمت کنجاہی اور عبدالقادر بیدل کا ذکر کیا اور ان کے اشعار سُنائے۔ انھوں نے کہا کہ حضرت سلطان باہو بھی اِسی صدی میں پیدا ہُوئے جو پنجابی صوفی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی شاعر اور نثر نگار بھی تھے۔ آخر میں انھوں نے فارسی شعری روایت کی تہذیبی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ دنیا کے 82 ملکوں میں فارسی سمجھی جاتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ان ممالک میں بیدل فہمی و بیدل شناسی پروان چڑھے۔ انھوں نے کہا کہ بیدل نے 92 ہزار شعر کہے جن میں 49 ہزار شعر غزل کے ہیں۔ عبدالقادر بیدل ہماری تہذیب کے نمائندہ شاعر ہیں۔ وہ صوفیانہ و فلسفیانہ فکر کے ساتھ ساتھ ترقی پسند شاعر بھی تھے۔ علامہ اقبال نے رومی کو مرشد اور بیدل کو مرشدِ کامل کہا ہے۔ میر، غالب اور اقبال تک بیدل سے متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بھی اس کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ بیدل انسانیت کے شاعر تھے اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ انھوں نے کہا کہ بیدل پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا متن اور فرہنگ مرتب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیدل مرکز قائم کرنا چاہیے تاکہ ان کے افکار اور نظریات کو فروغ دیا جاسکے۔

ڈاکٹر محمد آصف رضا نے ’’حیرت اور میٹا فزکس‘‘ کے عنوان سے اپنامقالہ پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ بیدل اسرارِ کائنات کے محقق تھے۔ ان کے ہاں حیرت کا مطلب معرفت حاصل کرنا ہے۔ جناب انعام رحمانی نے افغانستان سے آن لائن سیمینار میں شرکت کی اور کہا کہ افغانستان میں بیدل پر 12 کتابیں اور 84 کے قریب مقالات موجود ہیں۔ انھوں نے افغانستان کی مساجد اور مزارات پر بیدل خوانی کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے گلوکاروں (بالخصوص ناشناس) نے بھی بیدل کے کلام کو گا کر فروغ دیا۔ ڈاکٹر شوکت اعوان نے کہا کہ بیدل بہت بڑے مفکر تھے لیکن ان کی فکر اور فلسفے پر تسلی بخش کام تاحال نہیں ہوا۔ انھوں نے بیدل کے منفرد اسلوب، تراکیب، اصطلاحات، اور متنوّع موضوعات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلسفیانہ سوچ کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ فزکس کے نظریات بیدل کے ہاں موجود ہیں۔ جناب فضل اللہ فانی نے ’’ترجمہ شعر بیدل، فنی و ادبی پہلو‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیدل کے اشعار کا ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے جب تک بیدل کی تراکیب، استعارات، شعری پس منظر اور فکر و معانی، زبان وبیان، بحور اور وزن کو مکمل طورپر نہ سمجھا جائے ان کا ترجمہ ممکن نہیں۔ انھوں نے بیدل کے تراجم کے حوالے سے نعیم الحامد اور صوفی تبسّم کے کام کو سراہا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بیدل کے 150 شعروں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ جناب شوکت محمود نے کہا کہ میں گزشتہ 14برس سے بیدل فہمی پر کام کررہا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ 77 سال میں بیدل پر 30 کتابیں اور40 کے قریب مقالے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر غازی محمد نعیم نے ’’فکرِ اقبال پر بیدل کا اثر‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے بید ل کو مرشد کامل کہا ہے۔ اقبال نے مختلف انگریزی مقالوں میں بھی بیدل کا ذکر کیا ہے۔ اقبال نے اپنے اشعار میں بیدل کی مشرقیت کی روح کوتازہ کیا۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں موجود فلسفے پر بیدل کا اثر نمایاں ہے۔ مہمانِ اعزاز ڈاکٹر شیر علی نے ’’بیدل شناسی کی نئی لہر‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الحمدیونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بیدل فہمی پر 14 لیکچر دیے جا چکے ہیں، جس میں سے 4 لیکچرز ڈاکٹر سید تقی عابدی نے دیے ہیں۔

مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی نے کہا کہ بیدل پر افغانستان اور ایران میں بہت کام ہوا ہے، تاہم ان پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بیدل اکیڈمی قائم کی جائے۔ صوبائی سطح پر بھی بیدل مرکز ضروری ہے یا کسی یونیورسٹی میں بیدل چیئر قائم کی جائے تاکہ بیدل پر اُن کے شایانِ شان مربو ط کام کیا جا سکے۔ آخر میں صدرِ محفل ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ بیدل پر لکھی گئی کتب میں اختر عثمان کی کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو بیدل فہمی اور بیدل شناسی سے آگاہی دیں۔ انھوں نے بیدل کی شاعری کاسلیس نثر میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

عالمی بیدل سیمینار کا دوسرا سیشن سہ پہر ڈھائی بجے تا شام چار بجے منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید نے کی۔ جناب سلطان ناصر، ڈی جی، اکادمی ادبیات پاکستان، مہمانِ اعزاز تھے۔ جناب اختر عثمان، ڈاکٹر محمد سفیر، جناب ارسلان احمد راٹھور اور قاری یحییٰ اشرف گمریانی نے اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے مقالات و خطبات پیش کیے۔ نظامت جناب طالب حسین طالب نے کی۔ جناب اختر عثمان نے کہا کہ بیدل خوش اسلوب اور سلیقے سے شعر کہنے والے بڑے شاعر تھے۔ انھو ں نے کہا کہ اقبال سمیت متعدد بڑے شاعر ان سے متاثر تھے۔ جناب اختر عثمان نے کہا کہ میں بیدل کی ترقی پسندانہ غزلوں سے زیادہ متاثر ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیدل کی شاعری کا منظوم ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ تاہم انھوں نے بیدل کے کلام کے اپنے چند تراجم پیش کیے۔ قاری یحییٰ اشرف نے اپنی گفتگو میں بیدل کی تصانیف، فکر و فن، تخیل کی بلندی، اسلامی علوم کے حوالے، ان کی شاعری میں فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ، خود شناسی، فلسفہ ٔعرفان، فلسفۂ حیر ت اور اعلیٰ تشبیہات پر روشنی ڈالی۔ جناب ارسلان راٹھور نے میر کی شاعری پر بیدل کے اثرات کے حوالے سے تاریخی اور تہذیبی پس منظر پر گفتگو کی اور کہا کہ میر تخلیقی سطح پر بیدل سے متاثر تھے۔ ڈاکٹر محمد سفیر نے کہا کہ بیدل اپنے اسلوب کے حوالے سے فارسی کا بڑا شاعر ہے۔ بیدل نے رودکی کا اپنی رباعیات میں ذکر کیا۔ وہ حافظ شیرازی سے متاثر تھے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے کہا کہ بیدل کے اس سیمینار میں بہت پر مغز مقالے پڑھے گئے۔ بیدل کے خوب صورت اشعار سننے کو ملے اور ان کے منظوم ترجمے بھی بہت اعلیٰ درجے کے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیدل فہمی ایک تحریک کی صورت بن گئی ہے لیکن سرکاری سرپرستی کے بغیر بیدل پر کام کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا اکادمی ادبیاتِ پاکستان اور دیگر سرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائیں۔ ہم سخن کے روحِ رواں ظفر سید نے تمام مقررین اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انھو ں نے کہا کہ اِس سیمینار میں بیدل پر بہت اعلیٰ مقالے پڑھے گئے۔ آخر میں جناب سلطان ناصر، ڈائریکٹر جنرل، نے صدرِ محفل اور مہمانانِ خصوصی کو اکادمی کی منتخب مطبوعات پیش کیں۔

سفارتکاری Previous post تہران میں ثقافتی سفارتکاری پر کانفرنس: شنگھائی تعاون تنظیم کےازبکستان میں عوامی سفارتکاری مرکز کے ڈائریکٹر کی شرکت
آئی سی سی Next post آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلئے نیوٹرل وینیو کا معاملہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان طے پا گیا