سید عطا اللہ شاہ بخاری

سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ کی سیاسی بصیرت اور موجودہ جمہوریت

تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کی ہمہ گیر شخصیت کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا اس سے معلوم ہوا کہ سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جو کہ مجلس احرار کے قافلہ سالار اور اپنی طرز کے منفرد حریت پسند تھے، انگریز سے شدید نفرت رکھتے تھے قیام پاکستان کی مخالفت کے بارے میں بہت خوبصورت تاویل فرمایا کرتے تھے کہ مسجد بنانے پر ہماری ایک رائے تھی اب جب کہ مسجد بن چکی ہے تو اسکی حفاظت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے گویا قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کو مسجد کی طرح پاک اور اہل ایمان کی روحانی تربیت گاہ سمجھتے تھے،انھوں نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری انتہائی مستقل مزاجی اور جرائت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کہا کرتے تھے کہ آدھی زندگی ریل میں اور آدھی جیل میں گزر گئی۔

حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے معتقد اور بعض روایات کے مطابق 1916 ء میں انکی بیعت کا شرف حاصل کر چکے تھے،انھیں پیر صاحب نے دعا بھی دی تھی کہ پورے ملک میں شہرت ہو۔شاہ جی کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے خصوصی تعلق تھا جب بھی شاہ جی اقبال کے ہاں جاتے اقبال ان سے تلاوت قرآن سنتے اور شاہ جی ان سے انکا کلام سنا کرتے،وہ اپنے دور کے بلند پایہ خطیب اور قرآن کے قاری تھے انکے متعلق مشہور ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تو سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا تھا اور جب تقریر کرتے تھے تو سامعین کو وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا،مجمعے پر ایسا سحر طاری ہو جاتا کہ سامعین کے جزبات پر شاہ جی کی مکمل گرفت ہوتی وہ جب چاہتے الفاظ کی جادوگری سے سامعین کو قہقے لگانے پر مجبور کردیتے اور پھر چند ہی لمحوں بعد یہی لوگ سسکیاں بھر رہے ہوتے، ان کا مشہور قول ہے کہ یہ قوم پیسے والوں کے پیچھے پیچھے اور ڈنڈے والوں کے آگے آگے چلتی ہے یہ ان کا ساری سیاسی زندگی کا نچوڑ تھا انھوں نے تقریبا” نصف صدی تک سیاست میں انتہائی فعال، قائدانہ اور مخلصانہ کردار ادا کیا۔

ان کے نظریات، طرز سیاست اور ان کی تقاریر کے بعض ہجویہ پہلووں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن شائد ہی کسی کو انکے اخلاص اور بے غرضی میں شک و شبہ ہو۔وہ اس دنیامیں ایک درویش کی طرح جیئے اور اسی درویشی کے عالم میں رخصت ہوئے وہ درویشی جو ان کا طرہ امتیاز تھی، نہ مال و دولت پیچھے چھوڑا نہ جائیداد بس کردار کے غازی تھے لواحقین اور چاہنے والوں کے لیئے کردار کا عظیم ورثہ چھوڑا  آج نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی قوم کیاجتماعی شعور اور رویوں کے بارے میں شاہ جی کی رائے بر حق محسوس ہوتی ہے، کوچہ سیاست میں ایک مخلص اور درد مند انسان نے جو کچھ دیکھا، پرکھا، سہا اور محسوس کیا اس حاصل زندگی کو بعد والوں کی رہنمائی کے لیئے بیان کر دیا،یہ میدان سیاست کے منجھے ہوئے مرد میدان کا اپنی مجبور قوم کی بے بسی اور کمزوری کا نوحہ ہے اورمستقبل کے رہنماوں کے لیئے رہنمائی بھی۔

آج کل پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی برتری اور بہتری کے حوالے سے ایک بحث کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے یا کی جارہی ہے جو کہ نیتجے کے لحاظ سے اس وقت تک بے ثمر رہے گی جب تک ان نظاموں کو زور اور زر کی زنگ اور آلودگی سے پاک نہیں کیا جاتا، اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے رائے دہندگان پیسے والوں کے پیچھے پیچھے چلنے کی مجبوری، علت یا عادت سے نجات پائیں تو اس مقصد کے لیئے ملک کے اصحاب حل وعقد، الیکشن کمشن اور دانشوروں کو انتہائی عرق ریزی اور ایمانداری سے ایسا طریقہ کار اپناناچائیے جس میں ڈنڈے اور دولت والے ایلیکٹ ایبلز اپنے نمائندے اپنی تعداد کے لحاظ سے اپنے طبقے میں سے چنیں اور عوام کو اپنی تعداد کی نسبت سے اپنے طبقے میں سے اپنے نمائندے چننے کا اختیار ہو۔ کسی بھی نظام کو چلانے کے لیئے عوام کا آزاد رائے سے اپنے نمائندوں کا انتخاب اور پھر ان منتخب نمائندوں کاعوامی مفاد سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں صدارتی اور پارلیمانی دونوں طرح کے نظام آزمائے گئے اور دونوں ڈنڈے اور سرمائے کی نحوست کی وجہ سے وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے جن کے حصول کے لیئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا نتیجتا” قومی یکجہتی کی بجائے انارکی جنم لیتی رہی، آج ملک کے سیاسی نظام کو خواص کے ساتھ ساتھ عوام کے لیئے بھی فائدہ مند اور قابل قبول بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی طرح مادر ملت مس فاطمہ جناح جیسی سیاسی تربیت یافتہ اور مقبول عام شخصیت کو شکست نہ ہو سکے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محسن پاکستان اور عوامی ہیرو اپنا زر ضمانت ضبط نہ کرا بیٹھے اسی طرح ملکی نظام کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اعلی دماغ ٹیکنوکریٹس کو  منتخب اداروں تک رسائی کے مواقع حاصل ہوں،نظام میں جوہری تبدیلی کرکے سیاسی پارٹیوں کو ہر طبقے کے افراد کی عددی نسبت کے لحاظ سے ٹکٹ دینے کا پابند کیا جائے تاکہ ملک کے منتخب ادارے ہر طبقے کے حقیقی نمائندہ ادارے بن سکیں۔اگر ایسا ہوگا تو ملک کا ہر فرد اپنے آپ کو اقتدار میں شریک سمجھے گا اور یہی حقیقی جمہوریت ہے۔اس حقیقی جمہوریت کو صدارتی نظام سے بھی روبہ عمل لایا جا سکتا ہے اور پارلیمانی نظام کی مدد سے بھی، منتخب اداروں میں معاشرے کے ہر طبقے کی متناسب نمائندگی ہی اداروں کو مٹھی بھر خواص کی گرفت سے نجات دلا سکتی ہے ورنہ حسب  دولت والے ہی ملکی اقتدار پر قابض ر ہیں گے اور منتخب اداروں کی مراعات اور طاقت سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہیں گے۔

غزہ Previous post اسرائیلی فضائی حملوں میں 12 فلسطینی شہید، غزہ میں انسانی بحران شدید
ہندوستان Next post ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ایک اور واقعہ: مسلمان بزرگ شہری پر حملہ