افغانستان

افغانستان میں طاقت کی کشمکش اور بھارت کا بڑھتا ہوا کردار

کسی بھی گھرانے میں نظم و ضبط تبھی قائم رہتا ہے جب کوئی بزرگ یا سرپرست اس کے معاملات سنبھالتا ہے، اور اہلِ خانہ کی رہنمائی دانائی، ضبطِ نفس اور اختیار کے ساتھ کرتا ہے۔ لیکن اگر ہر فرد خود کو سربراہ سمجھ کر اپنی مرضی سے فیصلے کرنے لگے تو گھر کا نظام بکھر جاتا ہے، کیونکہ کوئی ڈھانچا اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب قیادت منتشر ہو جائے۔ یہی گھریلو مثال آج کے افغانستان کی کیفیت پر صادق آتی ہے، جہاں کسی غیر متنازع مرکزی اتھارٹی کے فقدان نے ہر صوبے، ہر قبیلے اور ہر گروہ کو اپنی الگ راہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جو ہمیشہ ایک مضبوط مرکز کی تلاش میں رہی، مگر کم ہی اس میں کامیاب ہو پائی—اور آج کا دور اس سے مختلف نہیں۔

طالبان حکومت، جو کبھی افغانستان پر اپنے مکمل کنٹرول کے دعوے میں پُراعتماد تھی، اب داخلی اختلافات اور بڑھتی ہوئی مزاحمت کے جال میں پھنس چکی ہے۔ جو نظام ایک متحد اسلامی حکومت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، وہ اب دراڑوں اور تقسیم کا شکار ایک انتظامیہ میں بدل چکا ہے، جو اپنے کمزور ہوتے ہوئے اختیار کو بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اگست 2021 میں دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد طالبان نے خود کو وحدت اور مذہبی جواز کے حامل حکمران کے طور پر پیش کیا، لیکن اس تاثر کے نیچے مذہبی قیادت اور مختلف دھڑوں کے درمیان گہری دراڑیں موجود تھیں، جہاں قبائلی وفاداریاں اکثر نظریاتی ہم آہنگی پر بھاری پڑتی رہیں۔ ان اختلافات کی شدت شمالی اور مغربی علاقوں کے اُن کمانڈروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے واضح ہوتی ہے جو اب کابل کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مقامی ملیشیاؤں کی دوبارہ سرگرمی نے افغانستان کو ایک بار پھر ٹکڑوں میں بانٹنے کی طرف دھکیل دیا ہے، اور وہ محدود نظم بھی خطرے میں ہے جو طالبان قائم کرنا چاہتے تھے۔

تاریخ افغان بے اتفاقی کی ایک روشن مثال پیش کرتی ہے؛ ایک وقت تھا جب کئی بااثر افغان سردار مکہ مکرمہ میں اکٹھے ہوئے۔ خانۂ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے باہم جنگ و جدال ترک کرنے کا عہد کیا۔ مگر وطن واپس آتے ہی وہ عہد ریت پر کھینچی ہوئی لکیر ثابت ہوا؛ پرانی دشمنیاں بھڑک اٹھیں، اور حرم کی حرمت بھی قبائلی تعصبات کو ماند نہ کر سکی۔

ایک اور تاریخی حقیقت بھی اتنی ہی اہم ہے وہ یہ کہ جب بھی کوئی غیر ملکی طاقت افغانستان پر حملہ آور ہوتی ہے تو یہ انتشار زدہ قبائل فوراً متحد ہو جاتے ہیں، اور پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات بھی غیر معمولی گرمجوشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی بیرونی خطرہ کم ہوتا ہے، پرانے اختلافات دوبارہ سر اٹھاتے ہیں، سردار اپنے اپنے ڈیرے الگ بنا لیتے ہیں، اتحاد بکھر جاتا ہے اور نظم و ضبط دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔

پاکستان کے لیے افغانستان کی یہ داخلی دراڑیں نہایت سنگین اسٹریٹجک اثرات رکھتی ہیں۔ اسلام آباد کو امید تھی کہ طالبان کی واپسی کے بعد افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔ مگر پاکستان مخالف جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہوں کے تسلسل نے یہ امیدیں ختم کر دیں۔ کابل کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود سرحد پار حملے جاری رہے، جس سے پاکستان کی مغربی سرحدی سکیورٹی کمزور پڑتی گئی۔ پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ افغان علاقہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

مگر طالبان قیادت—چاہے حکمتِ عملی کی بنا پر یا کمزور صلاحیت کے باعث—تمام گروہوں کو اپنے کنٹرول میں لانے میں ناکام رہی۔ کچھ عناصر، جنہیں مرکزی اختیار کی کمزوری نے حوصلہ دیا ہوا تھا، پاکستان مخالف جنگجو گروہوں سے روابط برقرار رکھے ہوئے تھے، جنہیں بھارت خفیہ طور پر سہارا دے رہا تھا۔ مئی میں پاکستان کے ہاتھوں رسوائی کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنے پراکسی نیٹ ورکس پھیلا دیے، ہر قبائلی اختلاف کو ہوا دی، اور اُن گروہوں کو استعمال کیا جو طالبان کے دائرۂ اختیار میں بھی نہیں آتے تھے۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی وطن واپسی بھی بھارتی سازشوں کا ایک نیا بہانہ بن گئی، جسے کابل میں نفرت انگیز بیانیہ گھڑنے اور پاکستان مخالف ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

بھارت کی حکمتِ عملی دو رُخی دکھائی دیتی ہے؛ افغانستان کو اتنا غیر مستحکم رکھنا کہ پاکستان کی توجہ تقسیم رہے، اور ساتھ ہی ’’انسانی تعاون‘‘ کے نام پر افغانستان میں اپنا پرانا اثر و رسوخ بحال کرنا۔ سابقہ نادرن الائنس کے عناصر سے نئے روابط اور جلاوطن گروہوں کی سرپرستی اسی خواہش کی عکاس ہے۔ افغانستان دہائیوں سے بڑی طاقتوں کی شطرنج کی بساط رہا ہے، جہاں ہر کھلاڑی نے ’’استحکام‘‘ کے نام پر اپنے خفیہ کھیل کھیلے ہیں۔

اس ماحول میں پاکستان نے بتدریج ایک زیادہ بالغ اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اسلام آباد جان چکا ہے کہ اس کی سلامتی صرف کابل کی یقین دہانیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتی۔ اسی لیے پاکستان نے اپنی داخلی، سفارتی اور اسٹریٹجک پالیسیوں کو از سرِ نو ترتیب دیا ہے۔ سرحدی نگرانی سخت کی گئی ہے؛ باڑ، چیکنگ اور نگرانی کا نظام بہتر بنایا گیا ہے؛ نقل و حرکت کے قواعد مزید منظم کیے گئے ہیں۔ سول و عسکری اداروں کے درمیان انٹیلی جنس تعاون مضبوط ہوا ہے، جس سے درانداز عناصر کے خلاف بروقت کارروائی ممکن ہو رہی ہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان نے چین، ایران، روس اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک علاقائی فریم ورک کی تشکیل کی کوششیں تیز کی ہیں تاکہ افغانستان کی مزید تقسیم کو روکا جا سکے اور بھارت کی یک طرفہ مداخلت کو محدود کیا جا سکے۔

سیاسی طور پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ افغانستان میں استحکام کسی ایک گروہ کی بالا دستی سے نہیں آئے گا بلکہ تمام نسلی اور مذہبی طبقات کے درمیان مکالمہ ناگزیر ہے۔ طالبان کی اس حوالے سے ہچکچاہٹ نے انہیں داخلی اور خارجی طور پر تنہا کر دیا ہے، اور پاکستان مسلسل انہیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔

افغانستان کے ہمسایوں کے بارے میں اُس کے ردِعمل میں ایک نمایاں تضاد بھی نظر آتا ہے۔ ایران نے بھی غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کا عمل شروع کیا، مگر کابل نے اُس پر وہ غصہ ظاہر نہیں کیا جو پاکستان کے خلاف دکھایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی عناصر افغانستان میں جان بوجھ کر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہیں، جبکہ ایران کے خلاف ایسے جذبات ابھرنے ہی نہیں دیے جاتے۔ جب بھی پاکستان اور افغانستان کے خیرخواہ ممالک نے طالبان وفد کو دوحہ اور استنبول میں ہونے والے طویل مذاکرات میں تعمیری راستہ اختیار کرنے کی نصیحت کی، بھارتی پراکسیز نے ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سعی کی۔ بھارت کی موقع پرستی وقتی مشکلات تو پیدا کر سکتی ہے، مگر یہ اس کی علاقائی عدمِ تحفظ کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ پاکستان نے اس کے برعکس یہ سیکھ لیا ہے کہ دیرپا امن جذباتی اُتار چڑھاؤ سے نہیں بلکہ برداشت، مکالمے اور تعاون سے جنم لیتا ہے۔

آج بھی افغانستان ایک ایسے گھر کی مانند ہے جس کا کوئی فعال اور بااختیار سربراہ موجود نہیں—جہاں ہر فرد خود کو فیصلہ ساز سمجھتا ہے۔ اس ملک کا انتشار کبھی اپنی حدود میں محدود نہیں رہا۔ جو قوتیں اس انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں، وہ اکثر خود بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ پاکستان کے لیے حکمت اسی میں ہے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ دور اندیشی، احتیاط کے ساتھ وضاحت، اور طاقت کے ساتھ علاقائی تعاون کو اپنائے۔ اسی توازن کے ذریعے پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ کر سکتا ہے اور خطے کو زیادہ مستحکم مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

تاریخ ایک ہی سبق بار بار دہراتی ہے؛ جب تک افغانستان ایک مضبوط مرکزی اختیار پیدا نہیں کرتا جو پورے ملک میں نظم نافذ کر سکے، خطے میں پائیدار امن کا امکان کم ہی رہے گا۔ اُس وقت تک پاکستان کو اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں ہوشیاری، عزم اور مستقل سفارت کاری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا—ایک ایسے ماحول میں جہاں اتحاد صرف خارجی دباؤ کے وقت ابھرتا ہے اور امن آتے ہی بکھر جاتا ہے۔

پاکستان Previous post وزیر اعظم شہباز شریف کا پاکستان ریلویز کی جدید کاری اور قومی معیشت کی مضبوطی پر زور
ویتنام Next post ویتنام اور کویت کے تعلقات اسٹریٹجک سطح پر اپ گریڈ، تعاون کے نئے دور کا آغاز