
نوجوان مسلمان نمازی کے بہیمانہ قتل پر صدر ایمانویل میکرون کی شدید مذمت
پیرس، یورپ ٹوڈے: فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے جنوبی فرانس میں ایک نوجوان مسلمان نمازی کے سفاکانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ “نسلی تعصب اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کی فرانسیسی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں”، اور آزادیٔ عبادت کے تقدس پر زور دیا ہے۔
صدر میکرون کا یہ بیان جمعے کے روز پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد سامنے آیا، جب مالی سے تعلق رکھنے والے بیس کی دہائی کے ایک نوجوان نمازی کو گارڈ (Gard) کے علاقے میں واقع لا گراں کومب (La Grand-Combe) کی مسجد میں بے رحمی سے چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور، جو ابتدا میں مقتول کے ساتھ نماز میں شریک تھا، نے اچانک حملہ کر کے نوجوان کو تقریباً 50 زخم پہنچائے۔
حملہ آور کی شناخت 21 سالہ فرانسیسی شہری، اولیور (Olivier) کے طور پر ہوئی ہے، جو بوسنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ علاقائی پراسیکیوٹر عبد الکریم گرینی کے مطابق ملزم فرار ہے اور “انتہائی خطرناک” تصور کیا جا رہا ہے۔
صدر میکرون نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں مقتول کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور فرانس کی مسلم برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ “آزادیٔ عبادت کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے”، اور ملک میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے عزم کو دہرایا۔
فرانسیسی وزیر اعظم فرانسوا بائرو (François Bayrou) نے بھی اس واقعے کو “اسلاموفوبیا پر مبنی بربریت” قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی، جبکہ پورے ملک میں اس واقعے پر شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس حملے کے خلاف اتوار کی شام پیرس میں “اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاج” کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق حملہ آور نے اس سفاکانہ کارروائی کی ویڈیو اپنے موبائل فون سے بنائی اور اسلام مخالف نعرے لگاتے ہوئے اسے ایک دوسرے فرد کو بھیجا، جس نے مختصر وقت کے لیے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا تھا۔
فرانسیسی مسلم کونسل (CFCM) نے اس حملے کو “مسلم مخالف دہشت گرد حملہ” قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی اور مسلم برادری سے مزید احتیاط برتنے کی اپیل کی۔ اسی طرح فرانسیسی یہودی اداروں کی نمائندہ کونسل (CRIF) نے بھی قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے “قابل نفرت جرم” قرار دیا، جو “تمام فرانسیسی شہریوں کے دلوں کو دہلا دینا چاہیے”۔
مقتول کی لاش جمعے کی صبح دیگر نمازیوں کی آمد پر دریافت ہوئی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزم کی گرفتاری اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے اپنی کارروائیوں کو تیز کر چکے ہیں۔
یہ افسوسناک واقعہ فرانس میں نفرت انگیز جرائم کے خلاف مؤثر اقدامات اور آزادی، مساوات اور اخوت کے اصولوں کے تحفظ کی فوری ضرورت پر ایک نئی قومی بحث کو جنم دے رہا ہے۔