مکار دشمن کی پسپائی اور ثالثی کی التجا

مکار دشمن کی پسپائی اور ثالثی کی التجا

پاکستان دیگر اقوام کی طرح محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک مقدس نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطہ تھا جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق، عدل، مساوات اور عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہی نظریہ ہماری رہنمائی کرتا رہا ہے، ہر طوفان میں روشنی کا مینار بن کر۔ جو آزمائشیں ہم نے جھیلیں، انہوں نے ہمارے عزم کو اور مضبوط کیا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مدد ہی ہماری اصل طاقت ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف اُن لوگوں کی حالت بدلتا ہے جو خود کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے

بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ لائے۔ (سورۃ الرعد، آیت 11)

ہماری قومی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے عالمی تنازعات کی پہلی صف میں کھڑے ہو کر کبھی فتوحات یا توسیع کے لیے نہیں بلکہ امن، انسانیت اور عدل کے اصولوں کی حفاظت کے لیے قربانیاں دیں۔ جب سویت افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی، تو پاکستان نے نہ صرف لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اٹھایا بلکہ اپنی معیشت، سیکیورٹی اور سماجی ڈھانچے کو خطرے میں ڈال کر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی  جنگ میں، ہم نے اپنی سرزمین پیش کی، اپنے سپوتوں کا خون دیا اور ڈٹ کر کھڑے رہے، جب بہت سے “دوست” خاموشی اور کنارہ کشی کو ترجیح دے رہے تھے۔

لیکن جب ہم نے اپنی مشکلات میں اُنہی دوستوں کی طرف دیکھا، تو اکثر نے مفاد کو بھائی چارے پر ترجیح دی۔ جب ہم نے مدد کے لیے پکارا، تو انہوں نے نظریں پھیر لیں۔ لیکن جب حالیہ بھارتی جارحیت نے ہماری خودمختاری کو چیلنج کیا، تو ایک بار پھر عوام کے اتحاد، افواج پاکستان کی بہادری اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ہم سرخرو ہوئے۔ آج وہی لوگ، جو چند روز قبل خاموش تماشائی بنے رہے، اب ثالثی اور مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں، جیسے اُن کی بے حسی کا کوئی حساب نہ ہوگا۔ مگر تاریخ، خاموشی میں اپنا جواب خود دیتی ہے۔

تاریخ یہ بھی محفوظ رکھے کہ بھارت نے اس بلا جواز جارحیت کے دوران نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی، بلکہ مساجد اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر ظلم کی انتہا کر دی۔ عبادت گزاروں اور راہگیروں کو بغیر کسی ثبوت کے دہشت گرد قرار دینا، بھارتی غرور اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس کے برعکس، پاکستان نے وقار، تحمل اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ جواب دیا۔ ہماری افواج اگر چاہتیں تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا سکتی تھیں، لیکن انہوں نے صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور کبھی بھی عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا۔ اس نظم و ضبط اور اخلاقی برتری پر دنیا نے پاکستان کی تعریف کی۔ ہماری افواج نے انتقام کی نہیں، بلکہ فرض، اصول اور عزت کے تقاضوں کے تحت کارروائی کی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے

اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔ (سورۃ المائدہ، آیت 8)

اس تمام آزمائش کے دوران پاکستانی قوم اور اس کی افواج کا صبر اور وقار قابلِ رشک تھا۔ مظالم کے باوجود ہم نے اپنے اصولوں کو نہیں چھوڑا۔ قیادت اور عسکری قیادت کا تحمل ہماری قومی پختگی اور امن سے وابستگی کا ثبوت تھا۔ ہم نے نفرت سے نہیں، بلکہ یقین سے جنگ لڑی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو، لیکن جب مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔ (صحیح بخاری)

ہماری ثابت قدمی رائیگاں نہ گئی۔ آج دنیا ہماری طاقت سے نہیں، ہمارے حوصلے سے مرعوب ہے۔ جنگ بندی کی باتیں ہماری نرمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ہماری ناقابلِ تسخیر استقامت کو دیکھ کر ہو رہی ہیں۔

تاہم ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔ دشمن چالاک ہے اور اُس کی دشمنی مستقل۔ آگ کی لپٹ کم ہو سکتی ہے، مگر چنگاریاں باقی رہتی ہیں۔ مذاکرات کی میز پر ہمیں واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنانا ہوگا۔ ہمارا پانی بند کرنا ایک سنگین ناانصافی ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہمسائیگی کے تقاضوں کی بھی تذلیل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، کشمیر کا مسئلہ—جو ہماری نظریاتی شناخت کا دل ہے—کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ محض ایک سرحدی تنازع نہیں، بلکہ ہمارے آباو اجداد کے وعدے کی روح ہے۔ دنیا ہماری باتوں سے تھک سکتی ہے، لیکن ہمیں اُنہیں دہراتے رہنا ہوگا۔

یہ حالیہ حالات ایک بار پھر قوم اور اس کی افواج کے درمیان ناقابلِ شکست رشتہ ثابت کر گئے ہیں۔ فوج نے صرف ایک جنگ نہیں جیتی، بلکہ عوام کے دل بھی جیت لیے ہیں۔ اُن کی قربانی نے ہمیں نبی کریم ﷺ کی یہ بشارت یاد دلائی:

جو شخص مسلمانوں کی حفاظت ایسے مقام پر کرے جہاں وہ خطرے میں ہوں، تو قیامت کے دن اللہ اسے اجر دے گا۔ (سنن ابوداؤد)

یہ وقت شکر اور احتساب کا ہے، نہ کہ غرور کا۔ یہ کامیابی ہمیں خود کو سنوارنے، اتحاد بڑھانے، اور کمزوریاں دور کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہمیں نوجوانوں میں سرمایہ کاری کرنی ہے، اداروں کو مضبوط بنانا ہے اور عدل و خدمت کا کلچر پیدا کرنا ہے۔ تب ہی ہم اُس پاکستان کی تعبیر حاصل کر سکیں گے جس کے لیے قربانیاں دی گئیں، اور جو ایمان، اتحاد اور قربانی کے اصولوں پر قائم ہو۔

آخرمیں، قوموں کی تقدیر نہ ہتھیار طے کرتے ہیں اور نہ ہی اتحاد، بلکہ حق، عدل اور ایمان کی پاسداری ہی اُنہیں سرخرو کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

“اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔” (سورۃ محمد، آیت 7)

آئیے ہم اس وعدے کو تھامے رکھیں، کہ یہی سب سے مضبوط رسی ہے جس سے ہم وابستہ ہو سکتے ہیں۔

ازبکستان اور ایران کے درمیان تعاون کو فروغ دینے سے متعلق اہم دستاویزات پر دستخط Previous post ازبکستان اور ایران کے درمیان تعاون کو فروغ دینے سے متعلق اہم دستاویزات پر دستخط
عالمی تجارتی نمائش "سوغد-2025" میں ترکمانستانی تاجروں کو شرکت کی دعوت Next post عالمی تجارتی نمائش “سوغد-2025” میں ترکمانستانی تاجروں کو شرکت کی دعوت