
سید محمد اشرف نقوی اور حرف مدحت

نعت عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی تعریف و توصیف کے ہیں لیکن نعت کا یہ لفظ صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکات کی مدح سرائی کے لیے ہی مخصوص ہو کے رہ گیا ہے۔ جہاں بھی اہل ایمان و اہل مودت موجود ہوتے ہیں وہ اپنے آقا ؐ کے حضور نعت کے گلدستے اپنی علمی و عقلی بساط و توفیق کے مطابق پیش کرتے رہتے ہیں۔ان ہی خوش نصیبوں میں ایک معتبر نام سید محمد اشرف نقوی کا بھی ہے جو بجا طور پر اپنی مقدر پر رشک کرتے ہیں کہ انہیں سرکار آقا کریم ؐ نے اپنی محبت اور شفقت عنایت کی ہے:
؎ ستارے میرے مقدر پہ کیوں نہ رشک کریں!!!
مہ عربؐ نے مجھے ایسی روشنی دی!!!
علامہ بشیر حسین ناظم کے بقول عرب معاشرے میں جو شخص جملہ محامد و محاسن، عمدہ اخلاق، دلکش شمائل و خصائل اور اصطناعی خوبیوں کا مالک ہو تو اسے” نعتۃ” کہا جاتا ہے اور عشاق مصطفےٰ ؐکے نزدیک ”نعتتہ ”کا کماحقہ اطلاق سیدالانبیاء و المرسلینؐ پر ہی ہوتا ہے اور وہ خوش نصیب ہیں جنہیں منظوم اور نثری انداز میں آقا کریم ؐ کی تعریف وتوصیف کرنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔سید محمد اشرف نقوی کو بھی یہ گراں قدر سعادت نصیب ہوئی ہے کہ وہ اپنی عقیدتوں اور محبتوں کے نذرانے” حرف مدحت” کی صورت میں سرکار کریم ؐ کے دربار عالیہ میں پیش کر کے قبولیت کے خواستگار ہیں:
؎ قبول کرلیں اگر آپ ؐ میرا نذرانہ!!
تو معتبر مرا سارا کلام ہوجائے!!
کسی بھی مسلمان شاعر کی شاعری اس وقت تک معتبر نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ حضور اکرم ؐ کے دربار اقدس میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کر کے قبولیت کی سند نہ حاصل کر لے۔ سید محمد اشرف نقوی پر بھی یہ خاص کرم نوازی ہوئی ہے کہ انہیں بھی دربار آقا کریمؐ سے قبولیت کے ساتھ ساتھ مقبولیت کی سند بھی عطا ہو گئی ہے:
؎ میں شمار وقطار میں تھا کہاں!
پھر بھی مجھ کو گنا گیاہے میاں!
یہ جو مانا گیا مجھے اشرف!
ان کا مجھ پر کرم ہوا ہے میاں!
اہل عرب کو اپنی زبان دانی پر بہت ناز ہوتا ہے اور فصاحت و بلاغت ان کا ہی خاصہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شفیق و مہربان چچا حضرت ابوطالب بھی عربی زبان کے فصیح و بلیغ اور صاحب دیوان شاعر تھے جب آپؐ کی پرورش و محافظت کی سعادت انہیں نصیب ہوئی تو انہوں نے اپنے اس خوش خصائل و خوش اطوار بھتیجےؐ کو کسی وقت بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ ان تمام لمحات کی منظر کشی انہوں نے منظوم انداز میں اس طرح کی کہ اس کا ایک مکمل دیوان مرتب ہو گیا جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک قابل فخر اثاثہ ثابت ہوا۔ تمام تاریخ دان اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابوطالبؑ سے ہی باقاعدہ نعت کا سلسلہ شروع ہوا اور نسل در نسل ان کے خانوادے میں اس کا سفر بلا کسی امتیازِ زمان و مکان جاری ہے اور عشاق کے دلوں کو گرما رہا ہے اور پیہم ان کے جذبوں کو تقویت بھی بہم پہنچا رہا ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائیِ کی یہ روایت امانتاً نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی سید محمد اشرف نقوی تک پہنچی ہے جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی اس روایت کو سینے سے لگایا اور اپنے آپ کو اس کا صحیح طور پہ امین ثابت کیا:
؎ جب سے ملی ہے مجھ کو مودّت کی روشنی!!!
آل عبا ؓ کی آنکھ کا تارا ہواہوں میں!!!
؎ ہوں خوش نصیب کہ آل نبی ؐ سے نسبت ہے!!!
سو اس خوشی کا ابھی تک خمار مجھ پرہے!!!
؎ آئے ہیں مرے ہاتھ جہانوں کے خزانے!!!
صد شکر کہ میری ہوئی سرکارؐ سے نسبت!!!
؎ ستارے میرے مقدر پہ کیوں نہ رشک کریں!!!
مہ عربؐ نے مجھے ایسی روشنی دی!!!
؎ مجھ پر کرم خدا کا، نبی ؐ کی عطا ہوئی!!!
لب پر مرے درود آتا چلا گیا!!!
سید محمد اشرف نقوی نے اپنی عقیدتوں کے نذرانے” حرف مدحت ” کا انتساب اپنے مغفور و مبرور والدین کے نام کرتے ہوئے اس کی ابتداء اللہ رب العالمین کے دربارمیں حمد و ثنا کے نذرانے سے کی ہے کیونکہ وہی ذات الہی تیرگی کو اجالوں میں ڈھالتی اور خزاں رتوں کو رنگ و جمال بخشتی ہے اور اس کی رحمت تمام اہل ایمان کا کل اثاثہ، وہی سب کی رگ جاں سے قریب اور سب کے دلوں کا مکیں ہے:
؎ میں بس جانتاہوں کہ رگِ جاں سے قریں ہے تو!!!
تو رب العرش ہے لیکن دلوں کا بھی مکیں ہے تو!!!
سید محمد اشرف نقوی کو اردو اور پنجابی زبان کا قادرالکلام شاعر ہونے کا امتیاز بھی حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور حضور اکرم ؐ کی خاص شفقت سے جب نعت گوئی کے چمنستان کی طرف راغب ہوئے تو اس میدان میں بھی انہوں نے مدحت کے پھولوں کی ایسے آبیاری کی کہ جس کی خوشبو سے پورا ایک زمانہ مہک رہا ہے:
؎ میرے نبی کا کرم بے شمار مجھ پر ہے!!!
خزاں رسیدگی میں بھی بہار مجھ پر ہے!!!
تمام عشاق کی مدینہ طیبہ سے نسبت اس طرح سے ہے جیسے روح و جسم کی ہوتی ہے۔ سید محمد اشرف نقوی کی اس شہر خوباں سے انسیت و محبت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ ان کے آباء کا دیس ہے اور اس کے ذرے ذرے پہ ان کے آباء کے قدموں کے نشان ہیں اور وہ یہاں کی گلیوں بازاروں میں سرشاری کی کیفیت لیے ہوئے دیوانہ وار پہنچنے کی جستجو میں رہتے ہیں کہ جلد وہاں پہنچ کر سب کچھ اپنی آنکھوں میں سمیٹ لیں اور اس میں رچ بس جائیں اور اپنی عقیدتوں کا نذرانہ سرکار کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ؐکی بارگاہ میں پیش کریں کہ یہی ان کا سرمایہ حیات کل ہے:
؎ بس ایک بارمجھے اذن حاضری بخشیں!!!
نہ میری زیست چلی جائے رائیگاں آقاؐ!!!!
؎ آقاؐ! مجھے بھی شہر مدینہ بلائیے!!!
مجھ کو بھی در پہ پڑھنے کا ارمانِ نعت ہے!!!
سید محمد اشرف نقوی کے نعتیہ مضامین میں رفعت فکر کی پاکیزگی، عمدہ خیال آفرینی کی جدت و ندرت، جذب و شوق سے مزین اثر انگیزی، جمالیاتی رنگ و آہنگ کی بے مثال و دلفریب ہم آہنگی موجزن ہے۔ انتہائی عمیق سوز و گداز اور کیف و سرور کے سمندر مسلسل روانی اور انتہائی پراثر فراوانی کے ساتھ موج در موج رچے بسے ہوئے ہیں۔
؎ مدحت کے لفظ لفظ میں حسن ِ بیاں کا رنگ!!!
نکھرا ہوا ہے آج تو میری زباں کارنگ!!!
سید محمد اشرف نقوی کی نعتوں کے حرف حرف میں وجدان و عرفان، نیازمندی اور شکرگزاری کے جذبات موجزن ہیں اور ان میں عشق رسول ؐ کی شمع پوری تابانی کے ساتھ فروزاں ہے جس کی لو سے عشاق کے دلوں کو روشنی عطا ہو رہی ہے۔ ان کا کلام عمدہ و منفرد، دلآویز و توانا اور پرتاثیر ہے کہ کیف و مستی کے اشکوں کے سیل رواں کے ساتھ سوز و گداز بھی فزوں سے فزوں تر ہی ہوتا جاتا ہے۔
؎ جب تک آپ ؐ نہ آئے تھے بے کیف زیست تھی!!!
صبح و مسا حیات سہانی ہے آپؐ سے!!!
سید محمد اشرف نقوی کا قلب آئینہ جہاں نما ہے اور ان کی وجد آور نعتیں ہماری بصیرت و بصارت کو قوت ادراک سے آشنا کر رہی ہیں۔ ان کی نعتیں دلکشا روح پرور و کیف وسرور سے مزین دربار نبوؐی کے مناظر سے بھی قارئین کے دلوں کو منور کرتی ہیں کہ آدمی اس میں سرشاری اور استغراق کی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ ان میں نبی اکرم ؐ، اہل بیت اطہار، صحابہ کبارؓ اور اولیائے کرام ؒ سے وا لہانہ عقیدت و مودت کے جذبات فراوانی کے ساتھ موجزن ہیں:
؎ جھرمٹ میں کہکشاں کے تھے ماہ ِ مبین آپ!!!
اصحابؓ باصفا تھے ستارے حضورؐ کے!!!!
؎ شامل ہیں جس میں فاطمہؓ، حیدؓر، حسنؓ وحسینؓ!!!
عالم میں شاہ ِ دیں کا گھرانہ ہے منفرد!!!
؎ ہوں جس میں حیدر کرارؓ، فاطمہؓ، حسنینؓ!!!
وہی گھرانہ ہے جو خاندانِ رحمت ہے!!!!
سید محمد اشرف نقوی عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبے ہوئے خوش فکر، خوش بیان اور رمز و اسلوب آشنا ثناخوان مصطفےٰ کریم ؐ ہیں۔ ہر مسلمان کی طرح ان کے اندربھی آقا کریم کے رخ انور کی قلبی و بصری، ظاہری و باطنی اور قبر میں بھی زیارت کی خواہش اپنے قلب وذہن میں بسائے ہوئے ہیں جس نے قارئین پر بھی یہ کیفیت فراوانی کے ساتھ بھرپور انداز میں طاری کردی ہے:
؎ سناہے جب سے کہ دید انؐ کی قبر میں ہوگی!!!
تبھی سے موت کا اس دل میں ڈر نہیں آتا!!!
؎ مرنے کی خوشی اور فزوں ہونے لگی ہے!!!
آئیں گے نبیؐ قبر میں، یہ جب سے سناہے!!!
نعت گوئی کے اس سفر میں سید محمد اشرف نقوی کا ادب و احترام، ان کا اسلوب و تلازماتی بہاؤ اور ان کے استعمال کا قرینہ اور سلیقہ یقیناً نئے لکھنے والوں کے لیے بھی ثروت مند اثاثہ ثابت ہو گا۔ اس میں بہت عمدہ الفاظ، قافیہ اور ردیف کے بہترین لحاظ کے ساتھ ساتھ شاعری کے لوازمات کا برتاؤ بھی حسن وخوبی کے ساتھ جھلکتا ہے۔ سرکار دو عالم ؐ کی ذات بابرکات کے ساتھ ان کی فطری وابستگی اور خلوص سے بھرپور جذب و شیفتگی سے ان کی مدحت و محبت میں بھرپور نکھار بھی فزوں تر ہوتا چلا گیا ہے۔
؎ شام وسحر کو میرے اجالوں سے بھردیا!!!
مجھ بے ہنر کو اعلیٰ کمالوں سے بھردیا!!!
سید محمد اشرف نقوی نے اپنے قلب و ذہن کی گہرائی اور فکر و نظر کی وسعتوں سے ایسا دلنواز دیوان مرتب کیا ہے کہ جس کا ہر شعر گہرائی و گیرائی، صداقت و سچائی اور خلوص و رغبت کے ساتھ عشاق کی فکر کو مہمیز کرتا ہے۔ انہوں نے حیرت انگیز انداز میں بڑی متانت اور بردباری سے سامعین و قارئین کے بنجر و بیابان قلوب و اذہان کو زرخیز بنا دیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور نور کامل، حب علی ؓ اور فقر بوذری کے لیے دست بہ دعاہیں:
؎ میرے خدا! مجھے بھی وہی فقر ہو عطا!!!
رکھا جو تونے بوزرؓ وحبشی غلام ؓ میں!!!
؎ عطا دلوں کو محبت کا نورِ کامل ہو!!!
حضورؐ! حبِ علی ؓ، فقر بوذری ؓ دیجئے!!!
؎ یہی دعا ہے کہ بخشے مجھے خدا توفیق!!!
میرے قلم سے نکلتی رہے ثنائے رسول!!! ؐ
میرے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سید محمد اشرف نقوی پر خصوصی کرم ہوا ہے کہ آپ سے محبت، مودت اور روحانی تسکین کی یہ پاکیزہ اور مثالی کاوش کی تکمیل ہوئی۔ اللہ رب العالمین ان کی یہ سعی وجستجو کو قبول فرمائے اور اس کے ہرایک حرف کے بدلے میں انہیں اور ان کے اہلخانہ کو اپنے فضل وکرم سے بے انتہاء نوازے اوران کے قلم کو معجزنما بنا کر ان کے قلب وذہن کو نور مصطفےؐ سے تاباں ودرخشاں فرمائے۔ آمین یارب العالمین!!!!
؎ لفظ ایسے مجھے عطا کیجئے!!!
جو بھرے ہوں اثر کی دولت سے!!!
نعت لکھتاہوں دل سے میں اشرف!!! ؔگرچہ واقف نہیں ہوں مدحت سے!!!