سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہا وہ چلے نبی ﷺ
” شبِ معراج ” اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور بابرکت واقعہ ہے۔ یہ وہ رات ہے جب حضور نبی اکرم ﷺ مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور پھر سات آسمانوں سے گزر کر بارگاہِ الٰہی تک تشریف لے گئے۔ یہ رات صرف ایک عظیم معجزہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے رشد و ہدایت اور ایمان کی تقویت کا ذریعہ بھی ہے۔
شب معراج کا سفر قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے:
“پاک ہے وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ” (17:1)
یہ آیت نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی سفر کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ آپ کی تعلیمات کے ذریعے انسانیت کی روحانی بلندی کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ حدیث کی روشنی میں بھی شبِ معراج ہمیں روحانی اور اخلاقی سبق دیتی ہے۔ حضور ﷺ نے اس رات جہنم کے مناظر اور وہاں دی جانے والی سزاؤں کو بیان کیا، جو ہمیں اپنے اعمال پر غور کرنے اور اپنی اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔
شبِ معراج کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ اس سفر کے دوران وقت کو روک دیا گیا۔ یہ معجزہ انسانی عقل اور طبیعی قوانین کی حدوں کو چیلنج کرتا ہے۔ حضور ﷺ نے ایک ہی رات میں زمین اور آسمانوں کا وسیع سفر طے کیا، لیکن جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ کا بستر گرم تھا اور وضو کا پانی ابھی بہہ رہا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت انسانی فہم سے بالاتر ہے۔
اس مبارک رات میں حضور ﷺ کو اللہ کی قدرت کے کئی مظاہر دکھائے گئے اور آخرت کے حقائق سے آگاہ کیا گیا۔ آپ نے جنت کے انعامات اور جہنم کی سزاؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جنت میں دودھ، شہد اور شراب کی نہریں دیکھیں، جو اللہ کی نیک بندوں کے لیے انعامات کی علامت ہیں۔ اسی طرح آپ نے جہنم کے مناظر بھی دیکھے، جہاں جھوٹ، تکبر اور نماز کی غفلت جیسے گناہوں کی سزائیں دی جا رہی تھیں۔ یہ مناظر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے اعمال کے نتائج دنیا و آخرت دونوں میں ظاہر ہوں گے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے آسمانی سفر کے دوران کئی انبیاء اور عظیم ہستیوں سے ملاقات کی۔ پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ، چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ، چھٹے آسمانپر حضرت موسیٰؑ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقاتیں نہ صرف انبیاء کے مشن کی یکجہتی کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ اس بات کی بھی علامت ہیں کہ حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں اور تمام انبیاء کے مشن کی تکمیل آپ کے ذریعے ہوئی۔
اس سفر کے عروج پر حضور نبی اکرم ﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے، جہاں کوئی مخلوق نہیں جا سکتی۔ یہیں پر آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور امتِ مسلمہ کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی۔ ابتدا میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، لیکن حضرت موسیٰؑ کے مشورے پر حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے کمی کی درخواست کی، اور اللہ کی رحمت سے یہ پانچ کر دی گئیں، جبکہ اجر پچاس کا ہی رکھا گیا۔ یہ نماز ہمارے دین کی بنیاد اور اللہ سے تعلق کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
شبِ معراج سے ہمیں بے شمار سبق ملتے ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں اللہ کی لا محدود قدرت اور ایمان کی پختگی کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ اس رات کا سب سے بڑا پیغام نماز کی اہمیت ہے، جو نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ روحانی سکون، اخلاقی تربیت اور نظم و ضبط کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر ہم اس رات کے پیغام کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو ہم اپنے کردار اور اعمال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے شبِ معراج کے اسباق نہایت اہم ہیں۔ یہ رات ہمیں اتحاد، انصاف اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کا درس دیتی ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم ایمان داری، دیانت داری اور اجتماعی ذمہ داری کو اپنائیں تو ہم کرپشن، غربت اور ناانصافی جیسے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس رات کا پیغام ہمیں علم و حکمت کی اہمیت بھی سمجھاتا ہے۔ اگر پاکستان علم اور تحقیق کو فروغ دے تو ہم اپنے سماجی اور معاشی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔
آخر میں، شبِ معراج ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور حقیقی کامیابی اللہ کی خوشنودی اور آخرت میں نجات میں ہے۔ یہ رات ہمیں ایمان کی مضبوطی، کردار کی پاکیزگی، اور اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر ہم اس رات کے پیغام کو اپنی ذاتی اور قومی زندگی میں اپنائیں تو ہم نہ صرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں شبِ معراج کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین