
محترمہ شمیم شال ۔۔ تحریک حریت کشمیر کا نسائی استعارہ

محترمہ شمیم شال تحریک آزادی کشمیر کی نسائی قیادت کا ایک روشن و تابندہ استعارہ ہیں۔ انہوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کے شمال مغرب میں واقع ایک شہر سوپور میں ایک ایسے وقت میں آنکھ کھولی جب ان کا آبائی وطن غیروں کے قبضے میں تھا اور جیسے جیسے انہوں نے شعور کی منازل طے کرنا شروع کیں تو ان کی آنکھوں نے اپنے اطراف میں جبر و تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے مناظر ہی دیکھے جس نے ان کے ذہن پر بہت گہرے اور دوررس اثرات مرتب کیے جس نے آگے چل کر ان میں ایک عزم و حوصلہ اور ہمت و جرأت پیدا کی اور وہ اپنے ہم وطنوں پر ہونے والے اس ناروا ظلم وجبر کے خلاف اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ میدان عمل میں نکل کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران بھی اپنی قوم کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو فراموش نہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کی ماؤں ، بہنوں اوربیٹیوں کا ایک کارواں ان کی سرکردگی میں چل پڑا۔ کالے قوانین کی آڑ میں کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ان کی آواز سے اپنے کرتوتوں کا پردہ چاک ہوتے دیکھ کر کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے اس توانا آواز کو خاموش کروانے کیلئے انہیں اور ان کے خاندان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور انہیں اپنا آٓبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آزادکشمیر منتقل ہو کر وہ بالکل آرام سے نہ بیٹھیں بلکہ یہاں انہیں اپنی جدوجہد کو منظم طریقے سے استوار کرنے کا موقع میسر آیا۔ انہوں نے یہاں مہاجر خواتین میں اپنے حقوق اور ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک پیداکی اور کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم وستم سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ محترمہ شمیم شال کی انتھک محنت اور کوشش سے بھارتی قابض فوج کی طرف سے کشمیری عوام پر کیے جانے والے دردناک مظالم کی گونج بین الاقوامی اداروں میں بھی سنائی دینی لگی۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور عالمی اداروں کے ساتھ مؤثر رابطوں کی وجہ سے محترمہ شمیم شال ا پنے ہموطنوں کے لیے بےباک ترجمان کے طور پہ سامنے آئیں جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے ان کی سرگرمیوں سے خائف ہوکر ان کی اپنے آبائی وطن کی شہریت منسوخ کر کے ان کی اس سرزمین سے وابستگی ہی ختم کردی جس میں انہوں نے آنکھ کھولی، جہاں انہوں نے اپنی پہلی سانس لی، جہاں انہوں نے پل بڑھ کر اس دھرتی سے غیر متزلزل محبت کو اپنے قلب و جگر میں بسایا جسے وہ غیروں کے قبضے سے آزاد دیکھنے کی تمنائی تھیں جس کے کھیتوں میں زعفران اگتے تھے اور جن کی خوشبو کو سونگھنے دنیا جہاں سے لوگ اس حسین وادی کا رخ کرتے جسے شاعروں نے جنت ارضی سے تعبیر کیا لیکن وہ زعفران اب بھارتی فوجیوں کے ناپاک بوٹوں نے کچل کر رکھ دیے ہیں اور ان زعفرانوں کی خوشبؤوں کی جگہ اب بارود کی ناگوار بو رچی بسی ہوئی ہے۔
محترمہ شمیم شال اپنی سرزمین سے بےدخلی کا زخم لے کر برطانیہ پہنچیں جہاں انہوں نے مظلوم کشمیری عوام اور خاص طور پر خواتین، جن میں سیدہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی بھی شامل ہیں، کی دکھ بھری داستانوں سے یورپی یونین اور برطانیہ کے پارلیمانی اراکین، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کو تفصیلا ً آگاہ کرنے کے لیے ایک نئے عزم اور حوصلے سے کوششیں شروع کیں۔ برطانیہ میں ہی محترمہ شمیم شال نے متعدد عالمی کانفرنسوں اور مختلف یونیورسٹیوں میں خطابات اور تحقیقی مقالہ جات کے علاوہ انہوں نے دو کتابیں
“The Plight of Kashmiri Women” اور “Brave Hearts of Kashmir”
بھی تحریر کیں۔ ان کی قومی اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو اقوام متحدہ کی ا نسانی حقوق کی ہائی کمشنر محترمہ میری رابنسن، اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان اور بطروس غالی نے بھی سراہا۔
یورپی برادری میں دنیا بھر کی وہ بہادر خواتین جنہوں نے اپنی زندگی کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مردانہ اجارہ دار معاشرے کی روایتی پابندیوں سے نکل کر پروقار طریقے سے اپنی پرامن جدوجہد کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کیا اور جو اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار اور ا پنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھا سکنے والی خواتین کے لیے مثال بنیں ان کے لیے ہر سال یورپین انٹرنیشنل وومن لیڈرشپ ایوارڈ جاری کیاجاتا ہے اور اس زمرے میں محترمہ شمیم شال کی بھی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 2021 ء میں یہ ایوارڈ عطا کیا گیا۔
2021 ء میں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے اپنی ہموطن خواتین پر ہونے والے دردناک اور المناک مظالم کو مؤثر طور پر اجاگر کرنے کے لیے بیمثال جدوجہد کرنے پر محترمہ شمیم شال کو او آئی سی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا جسے پذیرائی بخشتے ہوئے اسلامی کانفرنس تنظیم نے عرب جمہوریہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اپنے آٹھویں وزارتی اجلاس میں ان کے لیے اس ایوارڈ کی توثیق کی گئی جو انہیں جولائی 2025 ء میں پیش کیا گیا۔ یہ تمام اعزازات نہ صرف محترمہ شمیم شال کے لیے قابل فخر ہیں بلکہ ان لاکھوں کشمیری خواتین کے عزم و حوصلے کو خراج تحسین بھی ہیں جو گذشتہ 78سالوں سے بھارتی ظلم و بربریت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑی ہیں اور جنہوں نے اپنی قوم کے جائز حق، حق خودارادیت کے لیے نہ صرف اپنے سہاگ بلکہ اپنی عصمتوں کو بھی قربان کرتے ہوئے انہوں نے اپنے شیرخوار بچوں، جوان بیٹوں، بھائیوں اور بزرگوں کی لاشوں کو بھی اٹھایا۔
محترمہ شمیم شال کی جدوجہد کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے اہلخانہ نے ان کابھرپور ساتھ دیا۔ اس سلسلے میں ان کے شوہر نامدار پروفیسر نذیر احمد شال کی مدد و اعانت قابل صد ستائش ہے اور محترمہ شمیم شال کی کامیابیوں کے پیچھے پروفیسر شال صاحب کی شخصیت ہی پنہاں ہے۔
محترمہ شمیم شال کل جماعتی حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ میں کشمیر تحریک خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں جس کی بانی محترمہ انجم زمرد حبیب ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے ہموطنوں خاص طور پر مظلوم کشمیری خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔ محترمہ شمیم شال کی زندگی کا واحد مقصد اپنی مادر وطن کی بھارتی چنگل سے آزادی اور کشمیری قوم کے تسلیم شدہ حق، حق خودارادیت کا حصول ہے۔ محترمہ شمیم شال اور پوری کشمیری قوم کی عفت مآب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادو ں کے مطابق اپنا پیدائشی حق حاصل نہیں کر لیتے۔ انشاءاللہ! وہ دن دور نہیں جب محترمہ شمیم شال کی جدوجہد اور کشمیری عوام کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور ریاست جموں و کشمیر بھارتی چنگل آزاد کروا کر اس کا الحاق پاکستان سے کر کے ان لاکھوں شہداء کے مقدس خون کا قرض اداکریں گے!!!
بقول مظفروارثی:
ہرےبھرےموسموں کےپیچھےنئی سحرمسکرارہی ہے!!!
دلوں سےپھوٹےوفاکی خوشبو، اجالوں کوہمسفربنائیں!!!
کہ آنےوالےحسین دنوں سے، ہمیں صدااپنی آرہی ہے!!!
چلوکہ منزل بلارہی ہے، چلوکہ منزل بلارہی ہے!!!