
سوشل میڈیا اور ہماری نوجوان نسل

فنی و پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کی ماہرہ، صنفی برابری کی حامی / صنفی حقوق کی علمبردار
سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں میں جس تیزی سے جگہ بنائی ہے، وہ حیران کن بھی ہے اور تشویش ناک بھی۔ چند سال پہلے تک انسان ایک دوسرے سے خط کے ذریعے یا آمنے سامنے رابطے میں رہتا تھا۔ اب دوستی، اظہارِ رائے، خوشی اور غم سب کچھ سکرین پر منتقل ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی نے سب سے زیادہ اثر جس طبقے پر ڈالا ہے، وہ ہماری نوجوان نسل ہے۔ وہ نسل جس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، وہ آج انگلیوں کے اشارے سے جذبات، تعلقات، اور خوابوں کا کاروبار کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا نے بظاہر ایک آزاد فضا فراہم کی ہے، جہاں ہر کوئی اپنی بات کہہ سکتا ہے، اپنا چہرہ، اپنی صلاحیت، اور اپنے خیالات دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ مگر اس آزادی کے ساتھ ایک خطرناک پہلو بھی جڑا ہے — وہ ہے حد سے زیادہ نمائش اور دوسروں کی نظر میں آنے کی طلب۔ یہ طلب نوجوانوں کو مسلسل ایک ایسی دوڑ میں ڈال رہی ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ “میرے کتنے فالوورز ہیں؟”، “کتنے لائکس آئے؟”، “کسی نے کمنٹ کیوں نہیں کیا؟” — یہ وہ سوالات ہیں جو اب ان کے ذہنوں پر چھا چکے ہیں۔
تعلیمی میدان میں بھی سوشل میڈیا نے توجہ کو منتشر کر دیا ہے۔ طلبہ کلاس میں جسمانی طور پر تو موجود ہوتے ہیں، مگر ذہنی طور پر کسی اور ویڈیو، پوسٹ یا چیٹ میں گم ہوتے ہیں۔ تعلیم اب صرف امتحان پاس کرنے کی چیز بن گئی ہے، سیکھنے کی نہیں۔ تحقیق، مطالعہ، اور تفکر جیسی خوبیاں تیزی سے کم ہو رہی ہیں کیونکہ فوری نتائج اور شارٹ کٹ زندگی کا معیار بنتا جا رہا ہے۔
نفسیاتی طور پر، سوشل میڈیا نوجوانوں میں اضطراب (anxiety)، ڈپریشن، نیند کی کمی، اور تنہائی جیسی بیماریوں کو بڑھا رہا ہے۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ ہم دنیا سے جڑ رہے ہیں، مگر اندر سے خالی ہو رہے ہیں۔ جو وقت ہم رشتوں، قدرت، اور حقیقی تجربات کے ساتھ گزار سکتے تھے، وہ ہم ایسی تصویری دنیا میں کھو رہے ہیں جس کی حقیقت خود ہمارے دلوں کو تسلی نہیں دے پاتی۔
اخلاقی طور پر بھی ہم ایک نازک موڑ پر آ چکے ہیں۔ نوجوانوں میں گفتگو کے آداب، بڑوں کا احترام، اور اختلافِ رائے کی تہذیب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، کردار کشی، اور غیر سنجیدہ رویہ ایک عام چلن بن گیا ہے۔ ایسی نسل جو دلیل کے بجائے memes سے بات کرتی ہو، وہ معاشرتی تبدیلی کیسے لائے گی؟
مستقبل کی طرف دیکھیں تو یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI)، ورچوئل ریئلٹی، میٹاورس، اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز نوجوانوں کو حقیقی دنیا سے مزید دور لے جائیں گی۔ اگر آج ہم نے اپنی نوجوان نسل کو تربیت نہ دی، انہیں وقت، احساس اور مقصد کا شعور نہ دیا، تو آنے والے کل میں ہمارے معاشرے کے پاس صرف ٹیکنالوجی ہوگی — انسانیت نہیں۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے، اور اگر یہ ناسمجھ ہاتھوں میں رہا تو یہ ذہنوں کو مفلوج کر سکتا ہے، رشتوں کو ختم کر سکتا ہے، اور پوری نسل کو ایک مصنوعی زندگی میں دھکیل سکتا ہے۔
لیکن اس منظرنامے میں امید بھی ہے۔ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے نوجوانوں کو شعور دیا جا سکتا ہے۔ اسی پلیٹ فارم پر مثبت مہمات چلائی جا سکتی ہیں، تربیتی ویڈیوز، علمی مکالمے، اور اخلاقی مواد پھیلایا جا سکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ذریعہ ہماری خدمت کے لیے ہے، نہ کہ ہم اس کے غلام بن جائیں۔ سوشل میڈیا کو اگر مقصد، اعتدال، اور سچائی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ ایک نعمت ہے۔ لیکن اگر اس کا استعمال صرف وقتی تسکین، دکھاوا، یا دوسروں سے مقابلے کے لیے ہو، تو یہ ایک خاموش زہر ہے۔ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا معلومات کا خزانہ بھی ہے۔ اگر اسے سمجھداری سے استعمال کیا جائے تو یہی پلیٹ فارم سیکھنے، کمانے اور ترقی کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین، ادارے اور کورسز ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ نوجوان اپنے ہنر دنیا کو دکھا سکتے ہیں، فری لانسنگ سے آمدنی حاصل کر سکتے ہیں، اور اپنے خیالات کو مثبت انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا زیادہ تر استعمال صرف وقت گزارنے، دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہونے، اور بے مقصد تنقید یا نمائش تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اس وقت ہمیں والدین، اساتذہ، پالیسی سازوں، اور میڈیا سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں ڈیجیٹل لٹریسی سکھائی جائے، والدین اپنے بچوں سے دوستی کریں، اور میڈیا پر صرف سنسنی کے بجائے سچ اور سیکھنے کا ماحول پیدا کیا جائے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے، اسے مکمل طور پر نظر انداز یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہم اسے اپنی مرضی کا رخ ضرور دے سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو مقصد، وقت کی قدر، اور خودی کی پہچان دے سکیں، تو سوشل میڈیا ان کی طاقت بن سکتا ہے، کمزوری نہیں۔
یہ ایک نیا دور ہے، اور ہر دور میں نئی چیلنجز ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے چیلنجز ہماری جیب میں ہیں، ہماری نظروں کے سامنے ہیں، اور دن رات ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے غلام بناتے ہیں یا اس کے بادشاہ۔
یاد رکھیں، ہم جس نسل کو آج “سکرین کے پیچھے” چھوڑ رہے ہیں، وہی کل کو اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ اگر ان کی آنکھوں میں صرف “ریلز” کی چمک ہوگی اور دل میں خالی پن، تو قوم کا مستقبل کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔