
بندوق کے پیچھے ریاست: بھارت پر بڑھتے ہوئے عالمی دہشت گردی کے الزامات
بھارت کی خفیہ کارروائیوں اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں سرحدوں سے باہر ملوث ہونے کے الزامات اب عالمی سطح پر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ جو ملک کبھی صرف داخلی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے والا ایک علاقائی طاقت سمجھا جاتا تھا، اب اس پر ریاستی سرپرستی میں غیر ملکی سرزمین پر ایسی کارروائیاں کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بیانیہ اب صرف پاکستان جیسے روایتی مخالف ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک بھی بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
بھارت کے خلاف سب سے پرانے اور مسلسل الزامات پاکستان کی طرف سے آتے رہے ہیں، جس نے کئی بار بھارتی مداخلت اور دہشت گرد سرگرمیوں کے شواہد پیش کیے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں کیس بھارتی نیوی کے افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا ہے، جسے پاکستانی
سیکیورٹی اداروں نے 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے حراست میں لیا۔ یادیو نے خود اعتراف کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کا ایجنٹ ہے
اور بلوچستان و کراچی میں تخریب کاری میں ملوث رہا ہے۔ اگرچہ بھارت نے ابتدائی طور پر یادیو کی “را” سے وابستگی سے انکار کیا، تاہم بعد ازاں اس کی شناخت تسلیم کر لی گئی۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے اگرچہ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا، اور مکمل بریت نہیں دی لیکن بھارت کو محض قونصلر رسائی کی اجازت دی،—جس سے پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔
یادیو کے علاوہ، پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ نومبر 2020 میں پاکستان کے وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک جامع ڈوزیئر پیش کیا جس میں آڈیو، ویڈیو اور تحریری ثبوت موجود تھے کہ بھارت تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے کالعدم گروہوں کی مالی و لاجسٹک معاونت کر رہا ہے۔ اس ڈوزیئر میں افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کو ان کارروائیوں کا مرکز قرار دیا گیا۔
ان الزامات کو عالمی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب 18 ستمبر 2023 کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں ایک دھماکہ خیز بیان دیا کہ بھارتی ایجنٹوں کا ہاتھ کینیڈین شہری اور خالصتان حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں ملوث ہے۔ نجار کو 18 جون 2023 کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا۔ ٹروڈو نے کہا کہ “قابلِ اعتماد الزامات” موجود ہیں کہ یہ قتل بھارتی ریاستی ایجنٹوں نے کرایا۔ کینیڈا نے ایک سینئر بھارتی سفارتکار کو ملک بدر کیا جس پر بھارت نے جوابی اقدام کے تحت کینیڈین سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مغربی جمہوریت نے بھارت پر براہ راست غیر ملکی سرزمین پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام عائد کیا—ایسا رویہ جو عموماً آمریت پسند ریاستوں سے منسوب ہوتا ہے۔
ان الزامات کو مزید تقویت اس وقت ملی جب 29 نومبر 2023 کو امریکی محکمہ انصاف نے بھارتی شہری نکھل گپتا کے خلاف ایک فرد جرم جاری کی، جس میں اسے خالصتان حامی اور امریکی شہری گورپتونت سنگھ پنن کے قتل کی سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔ گپتا کو مبینہ طور پر ایک بھارتی سرکاری ملازم نے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا کہا تھا۔ گپتا کو چیک ریپبلک میں گرفتار کیا گیا اور امریکہ نے اس کی حوالگی کی درخواست دی۔ فردِ جرم میں خفیہ رابطے، مالی لین دین اور نگرانی کے شواہد شامل تھے، جنہوں نے بھارتی ریاستی کردار کو واضح کیا۔
یہ پیش رفت نہ صرف بھارت کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے اتحادیوں کے اندر بھی تشویش کا باعث بنی۔ واشنگٹن پوسٹ نے 1 دسمبر 2023 کو ایک رپورٹ میں کہا کہ مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں اب بھارت کی خفیہ صلاحیتوں اور ارادوں کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہیں۔ گارڈین اور بی بی سی نے بھی رپورٹ کیا کہ “فائیو آئیز” انٹیلیجنس گروپ (امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ) نے کینیڈا کے دعوؤں کی حمایت میں خفیہ معلومات شیئر کیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کر چکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے، ان کی نگرانی کرنے، اور بعض اوقات انہیں قتل کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔
ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خودمختاری، اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ اگر کوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔
مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ، اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔