شازیہ اکبر

شازیہ اکبرکی غزل پرتبصرہ – ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگراس قدر نہیں

شازیہ اکبر کی یہ غزل — جو اپنی ہیئت، فکری گہرائی اور داخلی موسیقیت میں خاصی پختہ معلوم ہوتی ہے۔

ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگراس قدر نہیں          لمحے وصالِ یار کے بھی معتبر نہیں

پہلے پہل کا لمس تھا رگ رگ سے بولتا             پہلے پہل کی سنسنی بارِ دگر نہیں

گونجے خیالِ یار کی کوئی  صدا کہاں                صحرائے دِل کے چار سو دیوار و در نہیں

حاصل ہوں کیا اسے کسی منزل کی قربتیں          اپنی نشاطِ روح سے جو با خبر نہیں

محدود دائرہ ہے بہت خواہشات کا                     ایسا نہیں کہ میری دعا میں اثر نہیں

شاید ابھی نصیب میں ہے دھوپ دیکھنا              اس دشتِ آرزو میں کوئی بھی شجر نہیں

اثبات کا مقام ہے اور دلبری کی شام                  مانا کسی طرح بھی مرا دل مگر نہیں

ٹھہروں تو ہو گماں کہ کوئی ساتھ ساتھ ہے          چلنے پہ  یوں لگے کہ کوئی ہم سفر نہیں

اس کی رفاقتوں پہ مجھے آئے کیوں یقیں            وہ شازیہ ؔ قریبِ رگِ جاں اگر نہیں

دل کی ایک ایسی صدا ہے جو خاموشی میں گونجتی ہے۔شازیہ اکبر کی یہ غزل ایک ایسے احساس کی ترجمانی کرتی ہے جو عشق کی شدت، جدائی کی وسعت اور روحانی شعور کی گہرائی کا امتزاج ہے۔یہ محض ایک عشقیہ اظہار نہیں، بلکہ ایک باطنی سفرنامہ ہے  جہاں قاری کو صرف محبوب نہیں، خود اپنی ذات سے مکالمہ سنائی دیتا ہے۔

موضوعاتی جہت:

غزل کا مرکزی استعارہ “فراق” (جدائی) ہے، مگر یہ جدائی صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی بھی ہے۔محبوب ساتھ تو ہے، لیکن “اس قدر نہیں” — یعنی اُس کی موجودگی کا “مکمل ہونا” محلِ سوال ہے۔یہ ایک مابعد الطبیعاتی کیفیت ہے:

“ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگر اس قدر نہیں

لمحے وصالِ یار کے بھی معتبر نہیں”

یعنی شاعرہ محض ظاہری قربت کو وصل نہیں مانتیں، بلکہ قربِ روح کی تلاش میں ہیں۔

اسلوب و اظہار:

شاعرہ کا لہجہ پُرسکون ہے، مگر اس کے اندر شدید اضطراب دبا ہوا ہے۔یہ وہی کرب ہے جو سنجیدہ اردو شاعری کی پہچان ہے۔

مثلاً:

“پہلے پہل کا لمس تھا رگ رگ سے بولتا

پہلے پہل کی سنسنی بارِ دگر نہیں”

یہاں یادِ ماضی کی تلخی اور موجودہ احساس کی سرد مہری مل کر قاری کو دھندلے جذبے کے اس پار لے جاتی ہے، جہاں پہلی بار کا لمس ہی اصل لمس تھا۔

علامت نگاری و فکری پھیلاؤ: اس شعر کو دیکھئے:

“صحرائے دِل کے چار سو دیوار و در نہیں”

“اس دشتِ آرزو میں کوئی بھی شجر نہیں”

دل کو صحرا سے تشبیہ دے کر شاعرہ نے خلا، ویرانی اور تنہائی کو بصری شکل دی ہے۔یہ محض دکھ کی بات نہیں، بلکہ امید کی نارسائی بھی ہے۔یہ علامتیں ہمیں جدید غزل کے اس مزاج کی یاد دلاتی ہیں جو احمد مشتاق یا منیر نیازی جیسے شعرا میں دکھائی دیتی ہے۔

فکری بصیرت:

“حاصل ہوں کیا اسے کسی منزل کی قربتیں

اپنی نشاطِ روح سے جو با خبر نہیں”

اس شعر سے محسوس ہوتا ہے  کہ شاعرہ صرف محبوب سے شکایت نہیں کر رہیں بلکہ ایک فلسفیانہ مکالمہ بھی ہے:

اگر انسان خود اپنی روح کی خوشی اور سچائی سے واقف نہیں، تو کسی “منزل” یا “رفاقت” کی قدر کیسے کرے گا؟

یہاں ایک عرفانی زاویہ بھی جھلکتا ہے۔

ردیف و قافیہ / موسیقیت:

غزل کا ردیف “نہیں” ہے، جو اردو شاعری میں ایک بہت باریک اور نازک صوتی کیفیت رکھتا ہے۔ہر شعر کی بندش میں قافیہ اور ردیف کی روانی اس قدر فطری ہے کہ احساس ہوتا ہے شاعرہ کو زبان کی گرفت بھی حاصل ہے اور بحر کی روانی پر بھی قدرت ہے۔

یہ غزل ایک مکمل ادبی تجربہ ہے جس میں عشق کی کم آمیزی، وجودی سوالات، یادِ ماضی، اور دشتِ تنہائی کےاستعارے مل کر ایک ایسا کینوس بناتے ہیں جو قاری کے ذہن پر دیر تک ٹھہرا رہتا ہے۔شازیہ اکبر نے عشق کو محض رومانی رنگ میں نہیں باندھا، بلکہ اسے روح اور فکر کے آئینے میں دکھایا ہے۔

چینی اولمپک فگر اسکیٹنگ چیمپئن جوڑی سوئی وینجنگ اور ہان کانگ کا مقابلوں میں شاندار واپسی کا اعلان Previous post چینی اولمپک فگر اسکیٹنگ چیمپئن جوڑی سوئی وینجنگ اور ہان کانگ کا مقابلوں میں شاندار واپسی کا اعلان
نیٹو میری ٹائم Next post آذربائیجان کا قومی پرچم استنبول میں نیٹو میری ٹائم سیکیورٹی ایکسیلنس سینٹر پر سرکاری طور پر لہرایا گیا