اسلام میں بنیادی انسانی حقوق کا تصور
دور جدید میں بنیادی انسانی حقوق کا بہت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے اوراس کا مفہوم مغربی نقطہ نظر سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے مراد قدرت کی طرف سے ہر انسان کو ودیعت کردہ وہ حقوق ہیں جو بغیر کسی رنگ، نسل، مذہب اور صنفی امتیاز کے بغیر بحیثیت انسان اسے حاصل ہیں تاکہ وہ آرام وسکون اور عزت و آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے جب بنیادی انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو انسان کی ذاتی زندگی میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی آزادی کی حدودوقیود کا احاطہ کیا جاتا ہے اور ان تمام حقوق کی تشریح مغرب کے نقطہ نظرکے مطابق ہی کی جاتی ہے جس کا ذکر سترہویں صدی سے پہلے تو کہیں نہیں ملتا لیکن ان کے بارے میں کچھ باتیں اٹھارویں صدی میں سامنے آتی ہیں جہاں سے انسانی حقوق کے بارے میں مغرب کے دانشوروں نے سوچنا شروع کیا اور خاص طور پر پہلی جنگ عظیم میں تقریباً دو کروڑ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دنیا کی تمام اقوام کو ایک مرکز پہ جمع کرنے کے لیے پہلے 1920 ء میں مجلس اقوام کی داغ بیل ڈالی گئی لیکن وہ بھی دوسری جنگ عظیم کو برپا ہونے سے نہ روک سکی جس کے نتیجے میں مزید کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تو اس مجلس اقوام کی جگہ 1945ء میں موجودہ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایاگیاجس کے تحت بنی نوع انسان کو مزید تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا منشور 10 دسمبر 1948 ء میں منظور کیا گیا جس کے عالمگیر اعلامیے میں یہ اقرار کیاگیا کہ بنیادی انسانی حقوق کسی ریاست کی طرف سے لوگوں کو نہیں دیے جاتے بلکہ ہرفرد کو انسان ہونے کی بناء پر قدرتی طور پر ناقابل انتقال اور کسی تفریق یا امتیاز سے بھی ماورا حاصل ہیں۔ یہ منشور عالمگیر انسانی حقوق پر جدید دنیا کے لیے 30 دفعات پر مشتمل پہلاجامع اور مکمل مسودہ تھا جس میں تمام انسانوں کے درمیان مساوات اور ان کی آزادی سے لے کر تشدد سے تحفظ تک بہت سے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت موجود ہے۔
اس منشور کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ جن بنیادی انسانی حقوق کا ذکر اس عالمی اعلامیہ میں کیا گیا وہ تمام چودہ سوسال پہلے ہمارے مذہب اسلام نے صراحت کے ساتھ بیان کر دیے تھے جن پر عمل کر کے ہی مدینہ منورہ میں ایک عظیم معاشرے کی تعمیر کی گئی جس میں کسی کو بھی نسلی یا صنفی بنیاد پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی اور قانون کی نظر میں سب لوگ برابر تھے۔ اسلام نے ان تمام حقوق کی دو جہتیں متعارف کروائیں جن میں ایک تو حقوق اللہ ہیں اور دوسرے حقوق العباد ہیں اور اسلام نے سب سے زیادہ زور حقوق العباد پر ہی دیا جن میں تمام انسانوں کا آزادانہ رہنا سہنا اور ان کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کی بلاروک ٹوک اور بلاتخصیص فراہمی کے علاوہ مذہبی عقائد کے مطابق عبادات اور روزمرہ زندگی کے عوامل کی انجام دہی کو ان کے بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا۔ اسلام میں انسانی حقوق کا تصور بہت جامع، مکمل اور غیر مبہم ہے جن کے سب سے بڑے ماخذ قرآن مجیداورسنت نبوی ﷺ ہیں اور ان کے بعد اجتہاد اور اجماعِ امت کوبھی اس میں شامل کیا جن کی تشریح نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں بھی فرمادی تھی۔ اسلام نے جو بنیادی انسانی حقوق وضع کیے ان میں ایک انسان کے عزت و وقار، حق ملکیت اور آزادی اظہار کے ساتھ زندہ رہنے کو اس کا سب سے پہلا حق تسلیم کرتے ہوئے اس کی تذلیل، غیبت وبہتان اور طنز و تحقیر کو حرام قرار دیاگیا۔ قصاص کے علاوہ کسی بھی بیگناہ انسان کی جان لینے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی جس کے بارے میں قرآن پاک کی سورہ المائدہ (32) میں فرمایا کہ ”جو کسی کو ناحق قتل کرے گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا“، اس کے بعد ان تمام انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، قبیلہ، زبان، دولت و اثر و رسوخ سے بالاتر برابری اور مساوات کا نظام قائم کیا گیا۔ حضورنبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں بھی واضع فرما دیا کہ ”نہ کسی عربی کو عجمی پر، نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کا لے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے“۔ اسلام نے انسانوں کے ان تمام حقوق کے ساتھ ساتھ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات جن میں غلاموں، عورتوں اور ذمیوں کے حقوق پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔ اسلام نے قراردیاکہ کسی شخص کو بغیر جرم کے قید یا گرفتار نہیں کیاجاسکتا اور غلاموں کو آزاد کرنے کے عمل کو پسندیدہ قرار دیا۔ مدینہ منورہ میں قائم پہلی مسلمان ریاست میں مسلمان شہریوں کے ساتھ ساتھ اس کے غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کو بھی اسی طرح کے حقوق حاصل تھے جس میں انہیں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی بھی حاصل تھی۔ اسلام نے اسی مسلمان ریاست میں عدل و انصاف پر مبنی ایک نظام بھی قائم کیا جس میں کسی بھی شہری کے ساتھ ناانصافی کا شائبہ بھی موجود نہیں تھا جس کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ النساء (آیہ 135) میں بھی ارشاد ہوا کہ ”اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر قائم رہو چاہے اپنے ہی خلاف ہو یا ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف“ اور نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا کہ ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں“۔ عورت جو صدیوں سے مظلوم اور پستی ہوئی چلی آ رہی تھی اور کسی بھی جنگ و جندل میں سب سے زیادہ نقصان عورت کا ہی ہوتا آیا تھا، اسلام نے عورت کے حقوق کی پاسداری کی بہت زیادہ تاکید کی اور اسلام کے آنے سے گویا عورت کو اس کا جائز مقام مل گیا۔
وہ لڑکی جو زندہ گاڑ دی جاتی تھی اسے بھی زندہ رہنے کا حق دیا اور اسے وہ حقوق دیے جو دنیا کی قدیم و جدید کوئی تہذیب نہ دے سکی۔ اسلام نے عورت کو تعلیم، کاروبار، جائیداد کی ملکیت اور وراثت کا حق دینے کے ساتھ ساتھ اسے شادی میں رضامندی، ناقابل واپسی مہر اور طلاق و خلع کا بھی حق دیا۔ اسلام نے مرد اور عورت کے اختیارات کی تقسیم کچھ اس طرح کی کہ مرد کو اہلخانہ کی حفاظت، ان کے نان نفقہ اور ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ عورت کو گھر کے انتظام و انصرام اور اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اسلام عورت کو مرد کا شریک حیات قرار دیتے ہوئے نہ اسے اس کا تابع کیا اور نہ ہی اسے یا کمتر درجہ دیا اور اس کے حقوق کے تعین کے لیے قرآن مجید میں ایک پوری سورۃ النساء نازل کر کے اسے معاشرے میں ایک باعزت مقام عطا کر دیا۔ اسلام کی نظرمیں مرد و عورت دونوں اللہ کے سامنے برابر ہیں اور دونوں کے لیے جنت، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا۔
اسلام میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں باعزت حیثیت میں بہت بلند مقام عطا کیا لیکن یہ آزاد مغربی معاشرے سے بالکل مختلف ہے جہاں اسے آزادی کے نام پر ایک تابع مہمل اور جنس بازاری بنا کر رکھ دیا گیا اور جہاں اسلام میں عورت کے لیے حجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اسلام نے یہ حجاب عورت کو گھر میں قید کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی عزت و عصمت کی حفاظت اور معاشرے میں پاکیزگی کے لیے ضروری قرار دیا۔ اسلام نے قرآن پاک کی آیتوں میں بہت تفصیل کے ساتھ معاشرے کے ہرفرد کے بنیادی حقوق کا تعین کر کے ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر انسانیت کی راہنمائی کے لیے پیش کر دیا اور حضورنبی کریم ﷺ کا آخری خطبہ بھی انسانی حقوق اور معاشرتی نظام کے لیے ایک جامع دستور العمل کی حیثیت رکھتا ہے۔
آپ ؐ نے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو ایک دوسرے پر حرام کر دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جب تک ایک بھائی خود اپنی جائز ملکیت میں سے کوئی بھی چیزخوشی سے نہ دے دے تب تک وہ چیز دوسرے کے لیے حلال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے جاہلانہ اور غیر اسلامی قتل و خون کے جھگڑے ختم فرما دیے اور اسلامی مساوات کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ”سب مسلما ن آپس میں بھائی بھائی ہیں، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اگر کوئی ہے تو صرف اور صرف پرہیزگاری ہی خدا کے نزدیک افضل ہے“۔ کمزوروں، غلاموں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں خاص خیال کی تاکید کی گئی، عورتوں کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا رویہ اختیار کرنے اور غلاموں کے بارے میں حکم فرمایا کہ انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور انہیں بھی وہی لباس پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور یہاں تک کہ کوئی کان کٹا حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو جائے اور اس کا طرزعمل خدا کی کتاب کے مطابق ہو تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ طرف سے وراثت میں مقرر کردہ ہر وارث کا حصہ ادا کرو اورجس کے قبضے میں کوئی امانت ہے تو اسے اس کے اصل مالک کو لوٹا دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کے آزاد رہنے کے بنیادی حق کی پاسداری میں غیرضروری طورپر جھکڑے ہوئے قرضوں سے اسے نجات دلوائی اور دور جاہلیت سے چلی ہوئی سود کی لعنت کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ انسان کو ایک اور ظلم عظیم سے نجات دلوائی کہ ہر شخص اپنے کیے کا خود جوابدہ ہو گا اور ہرگز نہ بیٹا باپ کا اور نہ باپ بیٹے کے جرم کا ذمہ دار ہوگا۔ ان تمام حقائق سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے ہی آج سے چودہ سو سال پہلے جب انسان کے بنیادی حقوق کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا تو اسلام نے ہی ان کی واضع اور غیر مبیم تشریح کر کے انسان کو تحفظ فراہم کیاجس کا آج کل کی دنیا میں تصوربھی محال ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مفکر گستاف لی بون (Gustave Le Bon) اور ان جیسے بہت سے مغربی مفکرین نے بھی تسلیم کیا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نے واقعی انسانی حقوق کو نافذ کیا، جبکہ باقی تہذیبیں صرف ان کادعوے ہی کرتی رہیں”۔
اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال دسمبر کی دس تاریخ کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس میں ایک فرد کے بنیادی حقوق کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے چونکہ ایک فرد معاشرے کی ایک اکائی ہے اور جس معاشرے میں انفرادی طورپرجب تک اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دی جاتی اس وقت تک بحیثیت مجموعی ایک متوازن، معتدل اور متنوع معاشرے کی تعمیر و پرداخت کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا۔ یہ امر بھی انتہائی قابل افسوس ہے کہ اس عالمی منشور کو نافذالعمل ہوئے بھی 65 سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود انسانیت کی تذلیل، چھوٹی اور کمزور اقوام جیسے فلسطین، بھارتی زیرقبضہ ریاست جموں و کشمیر اور میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کا استحصال اور ان کی نسل کشی کا سلسلہ نہ رک سکا جس کے ساتھ ساتھ عراق، لبنان، لیبیا اور شام بھی بیرونی جارحیت سے نہ بچ سکے۔ اس سال یوم حقوق انسانی کے موقع پر تمام بڑی طاقتیں متفقہ طورپر یہ عہد کریں کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی دستاویز پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے تمام چھوٹی اور کمزور اقوام کو ان کا بنیادی حق دلوائیں گی تاکہ دنیا صحیح طور پر امن وامان کا گہوارہ ثابت ہو اور اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد بھی پورا ہوجائے!!!!