
بیداری
ظلم انسانیت کے ضمیر پر سب سے سیاہ داغ ہے۔ ہر دور، ہر قوم، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے اسے مسترد کیا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ مذمت تو عام ہے لیکن خاموشی اکثر غالب آجاتی ہے، اور ظلم کے سامنے خاموش رہنا دراصل اس کا سب سے بڑا سہارا بن جانا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا پھر تمہاری مدد نہ کی جائے گی (ہود: 113)
یعنی ظلم کے خلاف کھڑا ہونا کوئی اختیار نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے”۔
تاریخ کا دریا ان مظلوموں کے خون سے بھی بہا ہے اور ان بہادروں کے عزم سے بھی جو ظلم کے آگے ڈٹ گئے۔ کچھ دکھ افراد کو گھائل کرتے ہیں، کچھ پوری قوموں کو روند ڈالتے ہیں۔ لیکن ہر تاریک لمحے میں انسانیت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے، یہ یاد دلانے کے لیے کہ ظلم کو کبھی بھی بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسا ہی منظر ابھی دو روز پہلے امریکہ کے شہر نیویارک میں دیکھا گیا، جہاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔
جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایوان سے خطاب کر رہا تھا اور سیاست کی زبان میں ظلم کو لپیٹ کر پیش کر رہا تھا تو ایک غیر معمولی لمحہ آیا۔ ضمیر کے نمائندے اپنی نشستوں سے اٹھے اور ایوان سے باہر چلے گئے۔ ان کی خاموش رخصتی کا شور نیتن یاہو کے الفاظ سے زیادہ گونج دار تھا۔ یہ ایسا احتجاج تھا جو اسمبلی کی دیواروں کو چیر کر دنیا کے دل تک جا پہنچا۔
تقریباً تیس سے پینتیس ممالک نے اس خاموش مگر گرجدار احتجاج میں حصہ لیا۔ ان میں زیادہ تر اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک تھے، مگر ان کے ساتھ وہ غیر مسلم ممالک بھی کھڑے تھے جو عرصہ دراز سے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے پر ہونے والے مظالم کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کا پیغام واضح تھا؛ وہ ان الفاظ کو سن کر حاضر نہیں رہ سکتے جو حقیقت سے کٹے ہوئے ہوں اور فلسطین کے خون بہتے زخم کو نظر انداز کریں۔
یہ فہرست اپنے اندر بڑی معنویت رکھتی تھی۔ عرب دنیا سے سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ ایشیا سے پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور برونائی؛ شمالی افریقہ سے مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ، جبوتی اور صومالیہ؛ پھر جنوبی افریقہ اور نامیبیا کے ساحل تک اور لاطینی امریکہ میں بولیویا تک۔ لبنان، شام، یمن اور افغانستان بھی اس احتجاج میں شامل تھے۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات کا ساتھ دینا، حالانکہ وہ ابراہیم معاہدے کے دستخط کنندگان ہیں، اس احتجاج کو اور بھی پراثر بنا گیا۔ پیغام دو ٹوک تھا؛ تعلقات کی بحالی کا مطلب ظلم کی تائید نہیں۔
یہ احتجاج دراصل اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کے مسلسل پھیلاؤ، غزہ کے گلا گھونٹنے والے محاصرے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے ردعمل میں تھا۔ نیتن یاہو کے الفاظ بے معنی قرار دیے گئے کیونکہ غزہ کے بچوں کا خون اور فلسطینی ماؤں کی آہیں کسی بھی تقریر سے زیادہ زور سے بول رہی تھیں۔
غزہ طویل عرصے سے وہ سرزمین ہے جہاں دنیا کا ضمیر ڈگمگا گیا۔ اس کے آسمان آگ سے بھرے ہیں، اس کی گلیاں ملبے سے اٹی ہیں، اس کی راتیں زخمیوں کی چیخوں اور شہیدوں کی خاموشی سے گھری ہیں۔ غزہ کا ہر پتھر ایک بچے کی بجھی ہوئی ہنسی کی یاد ہے، ہر گری ہوئی دیوار ایک رکی ہوئی دعا کا نشان ہے۔ لیکن اسی دکھ نے غزہ کو سچائی کا چراغ بنا دیا ہے جو دنیا کو اس کے اپنے ضمیر کا آئینہ دکھاتا ہے۔
اب برسوں کی ہچکچاہٹ کے بعد اجتماعی آواز جاگ اٹھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے لیکن ظالم کی کیسے مدد کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ظلم سے روک کر۔” وہ نمائندے جو اسمبلی سے اٹھ کر چلے گئے، انہوں نے ظالم کو اس کا جواز نہ دے کر اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کی۔
اگر یہ ممالک محض علامتی احتجاج سے آگے بڑھ کر حقیقی عزم کے ساتھ متحد ہوجائیں تو تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔ اللہ نے انہیں دولت، وسائل اور اثر و رسوخ عطا کیا ہے۔ اگر یہ یکجا ہو جائیں تو دوسرے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جن کے وہ اہل ہیں، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو (النساء: 58)۔ آج کی امانت یہ ہے کہ مظلوموں کا دفاع کیا جائے اور ظلم کو ظلم کہا جائے۔
غزہ سے لے کر مقبوضہ جموں و کشمیر تک، فلسطین کی لہو رنگ سرزمین سے لے کر دنیا کے ہر اس خطے تک جہاں ظلم سانس لیتا ہے، مظلوم انصاف کی صبح کا انتظار کر رہے ہیں۔ نیویارک میں ہونے والا یہ واک آؤٹ شاید ابتدا ہو، ایک بکھری ہوئی دنیا میں اتحاد کی چنگاری۔ لیکن یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ امن کے حامی بڑھ رہے ہیں اور امن کے دشمن ہمیشہ طاقت کے پردے میں نہیں چھپ سکیں گے۔
ظلم عارضی ہے؛ عدل دائمی۔ امن کے دشمن ایک دن رسوا ہوں گے اور ان کا ظلم انہی کے لیے باعثِ ننگ بنے گا۔ غزہ کی صدائیں، فلسطین کی دعائیں، شہیدوں کا خون—یہ سب رائیگاں نہیں جائیں گے۔ تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ کوئی بھی جابر ہمیشہ نہیں رہتا، لیکن ہر چھوٹی سے چھوٹی مزاحمت بھی فتح کا بیج بن جاتی ہے۔