
شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے
انسانی جان سے قیمتی چیز کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی زندگی سے محبت کرتا ہے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ایمان، یقین اور مقصد کے باعث اللہ کی رضا اور وطن کے دفاع میں اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم شہید کہتے ہیں، اور ان کی قربانی اس دنیا میں سب سے بلند درجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کو زندہ قرار دیا ہے، اور آخرت میں ان کا مقام کسی طرح معمولی یا نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
شہید کے گھرانے کا معاشرے میں ایک منفرد اور باوقار مقام ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بیوی، بہن بھائی اور بچے جب اپنے پیاروں کے جسدِ خاکی کو وصول کرتے ہیں تو وہ رنج کے ساتھ ساتھ فخر کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا پیارا اپنی جان وطن کے لیے قربان کر کے ایک عظیم امانت ادا کر گیا ہے۔
شہید اپنے رب سے کیے گئے وعدے کو پورا کرتا ہے اور زندہ لوگوں پر ایک اخلاقی فریضہ چھوڑ جاتا ہے — کہ وہ اس قربانی کا احترام صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کریں۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو ادا نہ کر سکے تو ہم اس خون کے مجرم ہوں گے جو ہماری سرزمین میں بہایا گیا۔
حالیہ واقعات اس حقیقت کی یاد دہانی ہیں کہ ہماری بہادر افواج دشمن کو ایک دن میں شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، مگر جب دشمن چھپ کر وار کرتا ہے، رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح حملہ کرتا ہے، تو پھر یہ صرف افواج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے شہری، انتظامی اور اخلاقی سطح پر اقدامات کرے — انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے۔ اگر یہ وطن ہمارا ہے تو ہم سب، اپنی مسلح افواج کے ساتھ، اس کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ وہ ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کرتے ہیں، لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔
میدانِ جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کھلی دہشت گردی کا سہارا لیا ہے، جس کے ناقابلِ تردید شواہد دنیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں 2024 کے دوران 799 دہشت گرد مارے گئے — یعنی اوسطاً ہر 2.1 دن میں ایک دہشت گرد — جبکہ 577 پاکستانیوں نے شہادت کا درجہ پایا۔ ان میں 272 بہادر فوجی، 140 پولیس اہلکار اور 165 بے گناہ شہری شامل تھے جو دشمن کی بزدلانہ سازشوں کا نشانہ بنے۔
2025 میں اب تک ہماری افواج نے 10,115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے ہیں، جن میں تقریباً 40 فیصد خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ ان کارروائیوں میں 917 دہشت گرد انجام کو پہنچے — اوسطاً ہر 3.5 دن میں ایک — جبکہ 516 پاکستانی شہید ہوئے جن میں 311 فوجی، 173 پولیس اہلکار اور 32 عام شہری شامل تھے۔ ان ہر اعداد کے پیچھے ایک کہانی ہے — بہادری، قربانی، اور ایک ایسے عزم کی جو دہشت کے مقابلے میں کبھی جھکنے کو تیار نہیں۔
دہشت گردی ہمارے وطن کا ایک ایسا چیلنج ہے جس کی وجوہات واضح اور اصلاح طلب ہیں۔ سب سے بڑی خرابی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی ہے۔ جب ریاستی اقدامات ادھورے رہ جائیں تو شرپسند عناصر کے لیے جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔
ثبوت اس بات کے موجود ہیں کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ہم نے متعدد مرتبہ افغانستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کا مؤقف صاف ہے — ہم ایک برادر اسلامی ملک کے طور پر افغانستان میں امن، استحکام اور باہمی احترام چاہتے ہیں۔ مگر اگر افغانستان میں غیر ریاستی عناصر سرگرم رہیں گے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ یہ عناصر کسی مذہب، نسل یا روایت سے تعلق نہیں رکھتے — ان کا مقصد صرف خون ریزی اور انتشار پھیلانا ہے۔
افغانستان میں امریکی ساختہ ہتھیاروں کی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ یہ اسلحہ کسی بھی وقت کہیں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی سلامتی کسی دوسرے ملک کی خاطر قربان نہیں کی جا سکتی۔ قومی خودمختاری اور شہریوں کا تحفظ ہمارے لیے ناقابلِ سمجھوتہ ہیں۔ پاکستانی قوم ایک فولادی دیوار کی طرح اپنے دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف متحد ہے اور ان شاءاللہ متحد رہے گی۔ ہمارے شہداء کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوں گی۔ پوری قوم ان کے خون کو سلام پیش کرتی ہے اور ان کی بہادری کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
اس موقع پر پوری قوم کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے محافظوں کے خون کو اداروں کی ناکامیوں کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو جرم کے اس نیٹ ورک کو ختم کرنا ہوگا۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار — چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا کسی بھی عہدے پر فائز ہوں — کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔
مکالمہ بلاشبہ مسائل کے حل کا بہترین طریقہ ہے، مگر جب دشمن اور اس کے حامی امن کو ٹھکراتے ہیں تو پھر ان کی زبان میں جواب دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے ہمیں یہی سکھایا کہ اگر امن کی پیشکش رد کر دی جائے تو جنگ ہی راستہ بچتا ہے، اور جو حق اور عدل کے لیے لڑتے ہیں، اللہ ہمیشہ انہیں کامیابی عطا کرتا ہے۔
یہی دہشت گرد سب سے مقدس قبائلی روایات کی بھی پامالی کرتے ہیں۔ وہ بچوں اور عورتوں کو ڈھال بناتے ہیں اور معصوموں کو ظلم کا ہتھیار بنا دیتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل ان کی اخلاقی پستی اور انسانیت سے لاتعلقی کا ثبوت ہے۔ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی، سماجی اور عسکری ہر سطح پر جائز اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔
شہداء کی قربانیوں کا حق تب ادا ہوگا جب پوری قوم سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہو، اپنے اداروں کو مضبوط کرے، اپنے منصوبوں کو مکمل کرے، اور اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرے۔ شہادت مردہ کو عظمت بخشتی ہے اور زندہ کو فرض یاد دلاتی ہے۔ آئیں ہم اس پکار کا جواب ہمت، دانائی اور عزمِ مصمم کے ساتھ دیں، تاکہ ہمارے شہداء کی قربانیاں ایک محفوظ، منصف اور آزاد پاکستان کی بنیاد بن سکیں۔